امریکی افواج

امریکی افواج کا انخلا

اسلام آباد (پاک صحافت) گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کے لاکھوں فوجی اہلکار افغانستان سمیت مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں تعینات ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاکر افغانستان میں گزشتہ بیس برس سے بیٹھے نیٹو فوجیوں کی موجودگی کے باوجود وہاں دہشت گردانہ حملوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ افغانستان میں موجود دہشت گرد پاکستان کی حدود میں داخل ہوکر پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیٹو افواج بیس برس گزرنے کے بعد بھی ناکامی کے ساتھ اپنے اپنے ممالک واپس لوٹنے پر مجبور ہیں جو افغانستان اور پاکستان سمیت پورے مشرق وسطی کے لئے خوش آئند بات ہے۔ جس سے پورے خطے میں امن و امان کی ایک نئی صورت حال پیدا ہوگی اور بیرونی مداخلت میں کمی آئے گی۔

آج سے بیس سال قبل نیٹو افواج کا افغانستان میں داخل ہونے کا مقصد دہشت گرد تنظیموں اور جنگجووں کا خاتمہ تھا۔ لیکن اس پورے عرصے میں امریکی افواج خود ان دہشت گرد تنظیموں اور جنگجووں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ خفیہ اداروں کی جانب سے جاری رپورٹس میں متعدد بار اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ نیٹو افواج افغانستان میں بیٹھ کر دیگر ہمسایہ ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو تربیت دے کر ہمسایہ ممالک بھیج دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی دہشت گرد ایک طویل مدت تک دہشت گردی پھیلاتے رہے ہیں۔

بالآخر پاک فوج نے ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کے جڑ کو پکڑ کر اسے کاٹنے میں کامیاب ہوگئی جس کے بعد سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ افغانستان میں موجود نیٹو افواج گزشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں جن میں خواتین، بوڑھے اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ آج سے بیس سال قبل افغانستان اور پاکستان میں شہری پرسکون زندگی گزار رہے تھے اور کسی کا مکان منہدم یا ویران نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب بڑی بڑی آبادی والے علاقے بھی ویرانے کا منظر پیش کررہے ہیں۔

افغانستان کو تباہ و برباد کرنے کے بعد امریکی افواج نے اب انخلا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیرونی افواج کے جانے کے بعد اس بات کا یقین ہے کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں تبدیلی آئے گی اور دہشت گردی کے واقعات کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ کیونکہ یہی افواج دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہی تھیں۔ امریکی افواج مختلف ممالک میں قومی، لسانی اور مذہبی فسادات کو ہوا کر اپنے مفادات حاصل کرنے اور اس ملک کے قیمتی اثاثوں سمیت سیاست میں قبضہ کرنے کا حربہ استعمال کرتی آئی ہیں۔ اب جب یہ لوگ خطے سے نکل جائیں گے تو پورا خطہ ان سے پاک و صاف ہوگا اور تمام ہمسایہ ممالک کے شہری خوش و خرم باہمی اتحاد و اتفاق اور محبت کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک دوطرفہ روابط و تعلقات کو مزید مستحکم کرکے کسی بیرونی فوج یا سیاستدان کو خطے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہ دن دور نہیں جب یورپ ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرنے پر مجبور ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے