بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پہلی بار براہ راست نام نہاد انتخابات کے دوران عوام نے سخت سیکیورٹی میں ووٹ ڈالے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق حریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے خدشات کے باعث ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر درجنوں پولیس و پیراملٹری اہلکاروں کو مشین گنز کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا، جبکہ آرمی اہلکار سڑکوں پر پیٹرولنگ کرتے رہے۔
مبصرین نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان سے گزر کر، کورونا وائرس کے خطرے اور برفباری کے باعث مقامی کونسلز کے اراکین کے انتخاب کے لیے عوام کی کم تعداد ووٹ ڈالنے آئی۔
ووٹنگ کا عمل 19 دسمبر تک آٹھ مراحل میں مکمل ہوگا جبکہ اس کے تین روز بعد سے گنتی کا عمل شروع ہوگا۔
وادی کے ایک پولنگ بوتھ پر 70 سالہ فیضی کا کہنا تھا کہ انہوں نے سڑکوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے ووٹ ڈالا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یکطرفہ اور غیر قانون اقدام کے بعد سے وادی میں بھاری سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔
دو روز قبل سرینگر میں گھات لگا کر کیے گئے حملے میں بھارتی فوج کے 2 اہلکار ہلاک ہوئے تھے، جس کا الزام حریت پسندوں پر عائد کیا گیا۔
کورونا وبا کے باعث پولنگ بوتھ کے باہر تھرمل اسکینرز نصب کیے گئے تھے جبکہ عملے کو ماسک اور سینی ٹائزر فراہم کیے گئے تھے۔
اگرچہ مقامی کونسلز کے اختیارات محدود ہیں لیکن اس کے باوجود بااثر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت متعدد کشمیری سیاسی جماعتوں نے وادی کی سیاسی خودمختاری کی بحالی مہم چلانے کے لیے اتحاد قائم کیا ہے۔
اتحاد کی طرف سے ان کے امیدواروں کو ہراساں کرنے اور بی جے پی کے امیدواروں کو مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا، تاہم مقامی الیکشن کمیشن نے ان الزامات کی تردید کی۔
انتخابات سے ایک روز قبل انتظامیہ نے پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کو ان کے گھر تک محدود کردیا تھا، جبکہ پولیس نے ان کی جانب سے بلائی گئی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو شرکت سے بھی روکا۔
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی ان سیاسی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں اگست 2019 میں غیر قانونی اقدام کے بعد کئی ماہ تک نظربند رکھا گیا تھا۔