برلن (پاک صحافت) ذیابیطس سے متعلق طبی ماہرین کی اب تک سب سے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، غیر ملکی ذرائع کے مطابق ماہرین کی جانب سے 900 افراد کا 25 سال تک مطالعہ کیا گیا ہے۔ ماہرین نے ذیابیطس سے پہلے کی کیفیت کو بہت سے بایومارکرز یعنی گلوکوز کی مقدار، جگر کی چکنائی، جسمانی چکنائی کی تقسیم، خون میں لائپڈ کی مقدار اور جینیاتی خطرات کی بنا پر دیکھا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان 6 ذیلی اقسام میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ مختلف ہوتا ہے اور اس سے ڈاکٹروں کو قدرے مؤثر علاج میں بھی مدد مل سکے گی۔ جرمن سینٹر برائے ذیابیطس ریسرچ کے پروفیسر ہانس الرخ ایرنگ کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق سے پہلے یہ بتانا مشکل تھا کہ پری ڈائبیٹس کے کونسے افراد آگے چل کر ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہوسکتےہیں، کن کے گردے متاثر ہوں گے یا کون ایسے ہیں جنہیں زیادہ فرق نہیں ہوگا؟
واضح رہے کہ مرض کو مختلف گروہ یا کلسٹر کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ موٹاپے، استحالے (میٹابولزم)، جسم میں انسولین کی فطری پیداوار، جگرپرچربی، رگوں کی موٹائی اور دیگر عوامل کی بنا پر انہیں مختلف درجوں میں رکھا گیا ہے۔ اس تحقیق سے ذیابیطس جیسے مرض کو بہتر طور پر قابو کرنے میں مدد مل سکے گی۔