پاپ فرانسیس کی شیعہ دنیا کے نامور رہنما آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات عالمی برادری کے لیئے امن کا پیغام

پاپ فرانسیس کی شیعہ دنیا کے نامور رہنما آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات عالمی برادری کے لیئے امن کا پیغام

(پاک صحافت)  دنیا بھر میں یہ خبر ایک اہم سرخی بنی ہوئی ہے کہ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پاپ فرانسیس اپنے دورہ عراق کے دوران شیعہ دنیا کے نامور مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کریں گے۔

عراقی کلیساوں کے رہنما لوئیس رافائل ساکو کے مطابق پاپ فرانسیس دورہ عراق کے دوران آیت‌الله سیستانی سے نجف اشرف میں ملاقات کریں گے، شیعہ مذہب کے ایک نامور دینی رہنما کے ساتھ یہ اہم ملاقات عالمی برادری کے لیئے یہ واضح پیغام ہیکہ

خصوصی ملاقات میں امکانی طور پر دونوں مذہبی رہنما انسانی برادری اور عالمی امن منشور اور شدت پسندی کی مذمت کے حوالے سے ایک سند پر دستخط کریں گے۔

لیکن اس ملاقات کا اہم مقصد کیا ہے اور پاپ فرانسیس آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات میں کن موضوعات پر گفتگو کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں جماعت علماء عراق کے سربراہ شیخ خالد الملا نے کہا ہے کہ مسیحیت کے رہنما پاپ فرانسس اور آیت اللہ سیستانی کے درمیان ملاقات عراق کی تاریخ کا یادگار لمحہ ہوگا۔

جماعت علماء عراق کے سربراہ خالد الملا نے دنیائے مسیحیت کے رہنما اور آیت اللہ سیستانی کے درمیان ملاقات کو تاریخ عراق کا یادگار لمحہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی رہبر انسانیت اور عراقیوں کے لیے واقعی اتحاد کا باعث ہیں، وہ اگرچہ شیعوں کے مرجع ہیں لیکن وہ شیعوں، اہلسنت، مسیحیوں اور ایزدیوں کے خلاف جنگ اور قتل و غارت کے دفاع کا نمونہ ہیں۔

جماعت علماء عراق کے سربراہ نے کہا کہ ان عراقی حالات میں پاپ فرانسس کا عراق کا دورہ اس بات کی علامت ہے کہ ویٹیکن اور پاپ عراق کے سیاسی نظام کو قبول کرتے ہیں۔

شیخ خالد الملا نے کہا کہ عراق کے خاص حالات میں پاپ فرانسس کا یہ دورہ بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ویٹیکن کے وفد کا عراق میں مسیحیوں کے مقدس مقامات کا وزٹ کرنا دنیا میں عراق کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کا باعث بنے گا۔

آیت اللہ العظمی سیستانی کے ساتھ پوپ فرانسس کی ملاقات ایک ایک عظیم واقعہ ہے اور اس تاریخی دورے پر تین اہم پیغامات دنیا تک پہنچیں گے:
پہلا پیغام یہ ہے کہ شیعہ مظلوموں کے حامی ہیں اور عالمی پوپ کو اس بات کا احساس ہو گا کہ شیعوں نے عیسائیوں کی ہر سطح پر حمایت کی ہے۔
دوسرا پیغام یہ ہے کہ عراق مختلف مذاہب کے مابین پرامن بقائے باہمی کا مرکز ہے۔
تیسرا پیغام یہ ہے کہ تکفیری گروہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ دورہ نہ صرف عراق کے لیے اہمیت رکھتا ہے بلکہ خطے میں امن کی کیفیت کو برقرار رکھنے کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔

خود عراق نے بھی پاپ فرانسیس کے اس دورے کو تاریخی دورہ بھی قرار دیا ہے، پوپ فرانسیس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ عراق کی مستقل مزاجی بہت اچھی ہے اس لیے میں وہاں جانا چاہتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ اب مستقبل میں عراق امن کا ایک خوبصورت چہرہ ثابت ہوگا اور ہر قسم کی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

پاپ فرانسیس کا کہنا ہے کہ عراق میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو میں امن کا پیغام دینا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ عدل اور وقار کے سب معیار برقرار رکھے جائیں اور انسانیت کا بول بالا ہو۔

یاد رہے کہ عراق میں صرف ایک فیصد ہی عیسائی رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اکثریت رہتی ہے جن میں زیادہ تر شیعہ مسلمان رہتے ہیں اور اب پاپ فرانسیس کا شیعہ رہنما کے ساتھ ملاقات کرنا دنیا کے لیئے یہ واضح پیغام ہیکہ شیعہ مذہب ہر دین اور مذہب کے ماننے والے کا احترام کرتا ہے اور شیعہ مذہب میں انسانیت اور دوسروں کا احترام کرنا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں مظلومین کی حمایت اور مزاحمتی گروہوں کی پشت پناہی میں ایران پیش پیش رہا ہے جبکہ آیت اللہ سیستانی نے ہمیشہ ایران کے اس موقف کی حمایت کی ہے اور عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی جو آیت اللہ سیستانی کے حکم کے مطابق بنائی گئی ہے اسے ایران کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے