ایرانی رہنما

سخت گیر رہنما امریکی پابندیوں کے خاتمے کی راہ میں اڑنگا ڈال رہے ہیں: حسن روحانی

تہران {پاک صحافت} ایران میں جون میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل سخت گیر مؤقف رکھنے والے رہنماؤں پر ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کا الزام عائد کیا گیا ہے اور حکمران جماعت کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ایرانی ریال کی گرتی قدر اور دگرگوں معاشی صورتحال سے نالاں عام ایرانیوں نے ملک کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے اس قدر سازگار حالات کبھی میسر نہ تھے۔
حسن روحانی دو بار صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں اور وہ تیسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ہیں۔
2015 میں ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کیے گئے معاہدے سے امریکہ پیچھے ہٹ گیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں ایران پر پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا تھا لیکن اب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
صدر روحانی نے اپنے مخالفین پر جوہری معاہدے سے متعلق بات چیت روکنے کا الزام عائد کیا ہے کہ ’اگر کسی گروہ یا فرد کی وجہ سے پابندیوں کے خاتمے میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر ہوتی ہے تو یہ ایرانی قوم کے ساتھ بہت بڑی غداری ہے‘۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ‘جوہری معاہدے پر جلد پیشرفت نہ کی گئی تو 18 جون کو ہونے والے انتخابات کے دوران سفارت کاری کئی ماہ کے لیے رک سکتی ہے۔
گزشتہ دنوں فرانسیسی وزیر خارجہ نے جوہری معاہدے کی بحالی میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایرانی انتخابات سے پہلے ہونے والی سیاست کا حصہ ہے‘۔
دریں اثنا ملک میں معاشی عدم استحکام کے خلاف پورے ایران میں مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ دو دنوں کے دوران تہران، تبریز، کرمان شاہ، اصفہان میں مظاہرے ہوئے ہیں۔
عرب نیوز افراط زر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ایران کی قومی کرنسی ریال اپنی قیمت کا 80 فیصد سے زیادہ کھو چکی ہے اور ریٹائر ہونے والے بیشتر ایرانی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہاں تک کہ سرکاری کنٹرولڈ میڈیا کی جانب سے بھی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ عوام میں عدم اطمینان بڑھ رہا ہے اور کورونا وائرس کی پابندیاں ختم ہونے کے ساتھ اس میں مزید شدت آنے کے امکانات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

اسرائیلی فوج

حماس کو صیہونی حکومت کی پیشکش کی تفصیلات الاخبار نے فاش کردیں

(پاک صحافت) ایک معروف عرب میڈیا نے حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے حوالے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے