دہشت گردی کی تعلیم دیتے اسرائیلی تعلیمی ادارے

دہشت گردی کی تعلیم دیتے اسرائیلی تعلیمی ادارے

(پاک صحافت) فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو یہودیوں کے بارے میں خبر دار کیا تھا کہ اِس وقت جو دنیا میں اقتدار عیسائیوں کے پاس ہیں جن کا سرخنہ نیو ورلڈ آڈر والا امریکا ہے۔

امریکا یہودیوں کے کنٹرول میں ہے، یہودی اُس کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں، اس لیے مسلمان اپنے شاندار ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے روشن مستقبل کے لیے خودکو تیار کریں۔

علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

مگر افسوس صد افسوس کے ہمارے سارے مسلم ملک امریکہ کے ذریعے یہود کے کنٹرول سے نکلنے کی کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔

دولت کی وجہ سے اس وقت یہودی اقوام متحدہ کے سارے اداروں پر قابض ہیں، پہلے تو عیسائی یہودیوں کے مخالف تھے۔

اس کا ذکر یہودیوں کے قدیم دستاویز پروٹوکولز میں بھی موجود ہے۔ عیسائی ہٹلرنے یہودیوں کی ریشا دوانیوں کی وجہ سے انہیں سزا دینے کی کوشش بھی کی، جسے عرف عام میں یہودی ہولو کاسٹ کہتے ہیں۔پھر رفتہ رفتہ دولت کے زور پر یہودیوں نے عیسایوں کو اپنے ساتھ ملا لیا، اب دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اسرائیل کا تعلیمی نصاب بھی دہشت گردانہ ہے، جو انسانیت کے لیے مضر ہے، ہمارا آج کامضمون اسی پر ہے، جسے ہم نے عوام کے سامنے رکھا ہے، مگرایک بار پھر اسرائیل کے دہشت گردانہ قومی ترانے کو دُھرا دیتے ہیں، اس سے اسرائیل کا دہشت گرد چہرا واضع ہو گا، یہودی اپنے قومی ترانے میں کہتے ہیں:۔

جب تک دل میں یہودی روح ہے، یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھتا ہے، ہماری امید ابھی پوری نہیں ہو۔اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب، اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم، ہمارے دشمن یہ سن کر ٹھٹر جائیں، مصر اور کنعان کے سب لوگ لڑ کھڑا جائیں، بیولون (بغداد) کے لوگ ٹہٹر جائیں، ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی ر ہے، جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گھاڑ دیں گے، اور ہم ان کا خون بہتے ہوئے، اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں، تب ہم اللہ کے پسندیدہ بندے ہونگے جو چاھتا ہے۔

اگر انصاف کی بات کی جائے اور یہودی جو اپنی نام نہاد زمین پر ہزار سال کا خواب دیکھتے ہیں، تو پھر اس طرح تو ہسپانیہ پر عربوں کا بھی حق بنتا ہے جہاں انہوں نے آٹھ سو سال سے زائد حکومت کی، مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون یہودیوں اور عیسائیوں نے دنیا میں رائج کیا ہوا ہے، اسی کو علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک تاریخی شعر میں اس طرح بیان کیا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:۔

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

اب آتے ہیں دنیا میں امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کے دہشت گردانہ تعلیمی نصاف کی طرف، جس کی وجہ سے اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست بنی ہوئی ہے۔

امریکا میں مقیم ایک عرب عیسائی steven salaitaا’سٹیون سلیٹا اپنے کتاب ’’anti arab racism in the usa ‘‘شائع شدہ امریکا میں اسرائیل کے تعلیمی نصاب کے بارے میں کافی کچھ تفصیل بتاتا ہے۔

وہ لکھتا ہے کہ تل ابیب یونیورسٹی نے اپنے طالبعلموں کے لیے ایک کتاب شائع کی ہے۔جس میں واضع طور پر بتایا گیا ہے کہ یہودی ایک منصفانہ اور انسانی معاشرہ تشکیل دینے میں مصرف ہیں، یعنی وہ ا ن عربوں کے خلاف جنگ کرنے میں منہمک ہیں جو اسرائیل میں یہودیوں کو بسنے دینے کے قائل نہیں۔

مذکورہ مصنف لکھتا ہے کہ اسرائیلی نصابی کتابوں میں یہودیوں کو بہادر، محنت کش اور ملک کی ترقی میں مددگار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عرب قوم ان تمام خصوصیات عاری ہیں، لکھتا ہے کہ عرب کم تر غیر مہذب سست الوجود اور بے حس ہیں۔ اِن کے مطابق عرب قاتل ہیں، جلائو گھیرائو کرتے ہیں اور آسانی سے مشتعل ہوجاتے ہیں۔

یہ منتقم مزاج، بیمار اور شور کرنے والے لوگ ہیں اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ایک سترہ سالہ اسرائیلی طالب علم نے بتایا کہ اس کی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر وہ کام جو یہودی کرتے ہیں عمدہ اور قانونی ہوتے ہیں جبکہ عربوں کے ہر فیصلے غلطی سے پُر ہوتے ہیں۔

عرب یہودیوں کو فلسطین سے نکالنے کے ہمیشہ درپے رہتے ہیں، تعلیمی کتابوں میں اس طرح کے اسباق سمو کر وہاں کی حکومت یہودی طلبہ میں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بل لکل ابتداہی سے سمونے کی کوشش کرتی ہے۔

حیفہ اسرائیل کے ایک اسکول کے چھٹی جماعت کے ستر فی صد یہودی طلبہ نے بتایا کی عرب لوگ گندے ہیں اور ان کے چہرے دہشت ناک ہیں، ان کے نوے فی صد طلبہ نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر فلسطینی عربوں کا کوئی حق نہیں۔

ایک امریکی مصنف وایڈیٹر کوہن کے مطابق 1967ء سے اب تک جو نصابی کتابیں اسرائیل میں شائع ہوتی چلی آرہی ہیں ان میں 520 کتابوں میں فلسطینیوں کے بارے میں توہین آمیز منفی تبصرے پائے جاتے ہیں جن میں عربوں کو تشدد پسند، برائی کا چشمہ جھوٹے، لالچی چہروں والے اور غدرا قرار دیا گیا ہے۔

عربوں کو رسوا کرنے کے لیے یہ بھی لکھا ہوا ہے، قاتل ۔۔۔21بار۔سانپ۔۔۔ 6 بار۔گندے۔۔۔ 9 بار۔منحوس جانور۔۔۔ 17 بار۔خون کے پیاسے۔۔۔ 21 بار۔ بھوتوں اور جنوں پر یقین رکھنے والے۔۔۔ 9 بار۔اونٹ کے کوہان۔۔۔ 2 بار۔ کیا کوئی مہذب قوم کسی دوسری قوم کے لیے ایسے لکھ سکتے ہیںو یہ صرف یہودیوں کا اعزاز ہے۔

ایڈیٹر کوہن لکھتا ہے کہ عربوں کے بارے میں یہ خرافات عبرانی(یہودی) ادب و تاریخ کا ایک بڑا حصہ ہیںو کتاب مذکورہ کا مصنف اسٹیون سلیٹا کہتا کہ رات کو اسرائیلی ایک پر سکون نید لیتے ہوں گےو کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ ان کی نصابی کتابیں اپنا کام خوب کر رہی ہیں۔

یہودی شریعت کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے تمام غیر یہودی بمشول عیسائی اور مسلمان گوئم(چوپائے، اُمی اور احمق) ہیںو لہٰذا اسی بنیاد پر ان کی ہر سطح کی درسی کتابوں میں یہودی طلبہ کو اصرار کے ساتھ بڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام قوموں کو گوئم، رذیل اور چوپائے سمجھیں۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ آج کوئی عیسائی اور مسلم حکمران اسرائیل سے نہیں کہتا کہ وہ اپنے نصاب سے انتقامی رد عمل دینے والے ہولو کاسٹ اور گوئم والے اسباق اپنے نصاب سے خارج کریں؟ جبکہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں سے اسلام کے متعلق مضمون خارج کر دیے گئے ہیں یا کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے