مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف بڑہتی نفرت اور اسلامی ممالک کی بے حسی

مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف بڑہتی نفرت اور اسلامی ممالک کی بے حسی

(پاک صحافت) آزادی اظہار رائے کے علم بردار ملک فرانس کی قومی اسمبلی نے اسلام کی تعلیم و تبلیغ کے خلاف قانون کو منظورکر لیا ہے، اس قانون کے مطابق مساجد اور مدارس کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا، سخت مذہبی نظریات کی روک تھام اور بچوں کو مرکزی تعلیمی اداروں کے علاوہ کسی بھی ذریعے سے تعلیم دینے پر پابندی عاید کی جا سکے گی۔

یہ قانون فرانسیسی قومی اسمبلی میں اکثریت سے منظور کر لیا گیا ہے، ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اس قانون پر 30 مارچ سے بحث ہوگی، قومی اسمبلی میں اس قانون کے حق میں347 اور مخالفت میں 151 ووٹ آئے جبکہ 65 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی یورپ اور امریکا کے علاوہ پوری غیر مسلم دنیا میں بھی پھیل رہی ہے۔

اب تک کی ساری مہم تعلیم، پراپیگنڈے اور فکری و نظریاتی دائرے میں جاری تھی لیکن اب حکومتی سطح پر جبر و تشدد کے ذریعے مسلمانوں میں ارتداد کی مہم چلائی جا رہی ہے۔

افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہ طبقہ موثر اور مقتدر ہے جو حق و باطل کی کش مکش کے وجود سے انکاری ہے اسلام کے خلاف نفرت کی لہر کو آگے بڑھانے میں عالمی ذرائع ابلاغ پیش پیش ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ جابرانہ اور استبدادی قانون سازی بھی کر سکیں۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کی وجہ یورپی اور مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا خوف ہے، یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ تخلیق آدم کے وقت سے کفر و اسلام، ہدایت اور گمراہی کے درمیان کش مکش جاری ہے اور ابلیس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی کے راستے سے گمراہ کروں گا، فرعونیت اور نمرودیت کا دور ختم نہیں ہوا ہے۔

اسلام اللہ کی بندگی اور عدل و انصاف کے قیام کا آخری پیغام ہے، یہ مسلمانوں کے ایمان و عمل کی کمزوری ہے کہ حق کی شہادت دینے کے بجائے الحاد مغرب کو نجات کا راستہ سمجھنے کی حماقت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

یہ واقعات ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اس دنیا میں مسلمانوں کی نجات حرف اللہ کے آخری پیغام کو انسانیت تک پہنچانے میں ہے، جس کا شعور باطل قوتوں کو تو حاصل ہے، مسلمان اور ان کے حکمران اس شعور سے محروم ہیں۔

نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی وار آن ٹیرر بھی اپنی بنیاد میں اسلام کے خلاف جنگ ہے، اسی وجہ سے جارج بش نے اسے کروسیڈ کا نام دیا جو اسلام کے خلاف جنگ کی علامت ہے، مغرب دنیا کے وسائل پر غلبے کے ساتھ عقیدے کی جنگ میں بھی شریک ہے۔

اس وقت بڑی تیزی سے اسلامو فوبیا کی آڑ میں مسلمانوں سے نفرت بڑھ رہی ہے اور روزگار کے میدان میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کورونا کی وبا نے ان مشکلات میں اور اضافہ کر دیا ہے، حال میں تشویش ناک پہلو اسکولوں میں اسلام سے نفرت کی لہر ہے۔

اس وقت برطانیہ میں تین لاکھ مسلم نوجوان تعلیمی نظام میں ہیں ان میں سے بیش تر تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں خاص طور پر حجاب پہننے والی خواتین اور طالبات، جہاں تک ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے حالات بہت دگر گوں ہیں۔

حکمران ٹوری پارٹی کے آدھے سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ مسلمانون کو برطانیہ کا وفا دار تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ یہ برطانیہ میں اپنے علاقوں میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، حزب مخالف لیبر پارٹی کے بیش تر مسلم اراکین پارٹی میں انٹی زائینسٹ تحریک کا شکار ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔

روایتی طور پر مسلمان لیبر پارٹی کے حامی اور پیش پیش رہے ہیں لیکن جب سے اسرائیل نے اسرائیل کے خلاف پالیسی اور فلسطینیوں کی حمایت کو یہودیوں کے خلاف پالیسی قرار دے رکھا ہے جس کے بعد کسی کی جرأت نہیں کہ وہ اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کر سکے۔

مسلمان فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے ان خطرات کو سوچتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے مسلمان حامی بھی اس ڈرپ میں آگئے ہیں، اس صورت حال نے برطانیہ میں اسلاموفوبیا کو بڑے کڑے انداز سے گھیر رکھا ہے اور دور دور تک اس میں کوئی تبدلی نظر نہیں آتی۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے