حکومت معیشت

معیشت اور حکومت

اسلام آباد (پاک صحافت) موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملکی معیشت زوال کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ تقریبا دو سال سے موجود کورونا وائرس نے معاشی تباہی کے لئے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ اس وقت ایک عام ریڑھی والے سے لے کر بڑے سے بڑے صنعت کار اور تاجر بھی پریشان و سرگردان ہیں۔ معیشت کا پہیہ تو پہلے ہی جام ہوچکا تھا لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے معمولی طور پر زندگی بحال رکھنے کا امکان بھی ناپید ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے معاشی بہتری کے اعلانات اور معاشی اعشارئے میں بہتری نے ایک بار پھر عوام کو ایک نئی امید دلا دی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب ملکی معیشت میں کوئی بہتری آئے اور حکومت اپنے تجربات کی روشنی میں کوئی ٹھوس اقدامات کرے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کو اس حوالے سے حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے ترقی کے بنیادی ستون برآمدات، صنعتیں، تعمیرات، آئی ٹی، زراعت، پولٹری اور ترسیلاتِ زر ہوں گے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 250 ارب روپے کے خطیر اضافے کی نوید بھی انہوں نے سنائی ہے جس کے بعد ترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کی جانے والی کل رقم 900 ارب روپے تک جاپہنچے گی جسے مکمل طور پر استعمال کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

معاشی ترقی کا اصل مقصد اس کے اثرات کا عوام تک منتقل کیا جانا، ان کی زندگیوں کو آسان بنانا اور ان کے معیار زندگی میں بہتری لانا ہونا چاہئے لہٰذا حکومت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات عمل میں لانا ہوں گے اور مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پانا ہوگا۔ قومی معیشت پر قرضوں کا مسلسل بڑھتا بوجھ بھی ایک انتہائی لائق توجہ معاملہ ہے۔ اگر حکومت عام شہری کی زندگی بہتر بنانے اور درآمد میں اضافہ کرنے اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں آسانی دلانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہی معیشت کی بہتری اور کامیابی ہوگی۔ ورنی اعلانات اور من پسند و خاص افراد کو نوازنے سے ملکی معیشت تباہ ہی رہے گی۔ عام شہری حسب سابق مشکلات و مسائل کے گرداب میں سرگرداں ہی رہے گا۔

مہنگائی اتنی ہوچکی ہے کہ غریب عوام کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ نصف سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کرپشن کے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں۔ ادویات کے بعد گندم کا ا سکینڈل، چینی کا بحران، آٹے کی قلت، پٹرولیم مصنوعات کا اسکینڈل، رنگ روڈ منصوبہ اور اس قسم کے درجنوں معاملات قوم کے سامنے آچکے ہیں جن میں حکومتی افراد ملوث تھے مگر کسی کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ نیب جن افراد پر بھی کیس بناتا ہے، وہ عدالتوں سے عد م ثبوت کی بنا پر آزاد ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو زبانی کلامی اقدام اور تبدیلی کی خواہش سے مزید بہلایا نہیں جاسکتا۔ اب عوام محض باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت اب مزید زبانی اعلانات کا سہارا لینے کے بجائے عملی اقدامات کرے تاکہ عام شہری کی مشکلات و مسائل میں کمی آسکے اور وہ سکون کی زندگی جی سکے۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے