منی لانڈرنگ ریفرنس میں احتساب عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کردی، احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے شہباز شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت کی۔
اسپیشل پراسکیوٹر نیب عثمان جی راشد چیمہ، ملزمان کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت تمام ملزمان کو بھی پیش کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز خالد محمود اور سید طیب زوار جبکہ ڈپٹی سیکریٹری پنجاب اسمبلی فیصل بلال بطور گواہ پیش ہوئے۔
فیصل بلال نے شہباز شریف کی 1988 سے 1990 اور 1993 سے 1997 تک تنخواہ و مراعات و دیگر فوائد کا ریکارڈ پیش کیا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1988 سے 1990 تک شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی سے تنخواہ وصول نہیں کی۔
ملزمان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے سوال کیا کہ شہباز شریف کی 1988 تا 1990 اور 1993 تا 1997 تک تنخواہوں و مراعات کا ریکارڈ کب نیب کو دیا، کیا آپ کے نیب آفس میں پہنچنے سے پہلے تفتیشی افسر کے پاس شہباز شریف کی تنخواہوں کا ریکارڈ پہلے سے موجود تھا؟
گواہ فیصل بلال نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، شہباز شریف کی تنخواہوں و مراعات کی تفصیلات 20 اپریل 2020 کو نیب کو بھجوائی تھی، بعد ازاں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ یہ خط 20 اپریل کو بذریعہ ڈاک نیب کو ارسال کیا جو 29 اپریل کو تفتیشی افسر کے پاس پہلے سے موجود تھا، فیصل بلال کے بیان بدلنے پر عدالت میں قہقہے لگے۔
وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اس موقع پر کہا کہ نیب پراسکیوشن نے بدنیتی کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سیکریٹری کو بطور گواہ پیش کیا، پراسکیوشن کے گواہ فیصل بلال اور طیب زوار پر تمام ملزموں کے وکلا نے جرح مکمل کرلی۔
عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کردی جبکہ پراسکیوشن کے گواہ خالد محمود کو 22 دسمبر کو جرح کے لیے دوبارہ طلب کر لیا۔
واضح رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔