میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج جاری، انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج جاری، انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی

میانمار (پاک صحافت)  میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے جس کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں بعد انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ینگون یونیورسٹی کے نزدیک ہزاروں افراد نے آمریت کے خلاف مظاہرہ کیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلی، مظاہرین نے فوجی آمریت کے خاتمے کے نعرے لگائے۔

مظاہرین نے معزول رہنماؤں آنگ سان سوچی اور ون مائنٹ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں، جن کی پارٹی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی تھی۔

مظاہرے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ دنیا کو بتائیں کہ یہاں کیا ہوا ہے، دنیا کو جاننے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب فوج نے احتجاج کو روکنے کی کوشش میں پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہیں۔

نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری کے مطابق رابطے کا معیار پہلے ہی 16 فیصد تک گر چکا ہے جبکہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام بلاک ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو ‘گھناؤنا اور ناقابل قبول عمل قرار دیا ہے۔

انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باوجود ہزاروں مظاہرین یانگون یونیورسٹی کے قریب جمع ہوئے اور متعدد لوگوں نے سرخ ہیڈ بینڈز پہنے ہوئے تھے جو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا رنگ ہے۔

انہوں نے تین انگلیوں کی سلامی میں ہاتھ اٹھایا دراصل یہ اشارہ تھائی جمہوریت نواز مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی علامت ہے، مظاہرین کے کم سے کم دو گروپوں نے میانمار کے مرکزی شہر کے دیگر حصوں میں مارچ کیا، مقامی میڈیا کے مطابق منڈالے میں تقریباً دو ہزار افراد نے مارچ کیا۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد پولیس نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی طور پر مواصلاتی آلات کی درآمد کے الزامات عائد کردیے ہیں۔

پولیس نے 75 سالہ آنگ سان سوچی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات عدالت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دارالحکومت میں ان کے گھر کی تلاشی کے دوران 6 واکی ٹاکی ریڈیو ملے ہیں۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

بغاوت کی یہ صورتحال سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

سعودی عرب امریکہ اسرائیل

امریکہ اور سعودی عرب کے ریاض اور تل ابیب کے درمیان مفاہمت کے معاہدے کی تفصیلات

(پاک صحافت) ایک عرب میڈیا نے امریکہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے