مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ان کی آواز کو دبانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔
بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 14 ماہ تک نظربند رکھنے کے باوجود میری آواز کو دبانے کے لیے ہر طرح کا دباؤ اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے ریاست کی خصوصی حیثیت کا محافظ تھا، جو جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق پر دیا گیا تھا، ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود جموں و کشمیر خصوصی شرائط کے تحت سیکولر انڈیا میں شامل ہوا، اب ان شرائط کی خلاف ورزی الحاق کے بنیادی اصول کے منافی ہے۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں کسی بھی نامور وکیل سے پوچھیں کہ آئینی اور قانونی طور پر آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی سے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ تعلق پر سوالیہ نشان پڑ گیا، میرے بیان کی بنیاد قانونی حقائق پر مبنی ہے لیکن بدقسمتی سے ہر چیز جو تکلیف دہ حقائق بیان کرے اُس کو ملک دشمن کہا جاتا ہے۔
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آئین کو غارت کرنے پر تلی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا نظریہ اور ایجنڈا غلط تھا اور اسے تبدیل کرنا پڑے گا، پی ڈی پی کے تصور کے مطابق جموں و کشمیر میں ایک پائیدار اور باعزت حل ہونا چاہیے، جس میں حق حکمرانی، مذاکرات اور مفاہمت شامل ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور محبوبہ مفتی سمیت کشمیری قیادت کو گرفتار یا نظر بند کردیا گیا تھا۔
محبوبہ مفتی کو ایک سال سے زائد عرصہ نظر بند رپنے کے بعد اکتوبر میں رہائی ملی تھی اور انہوں نے فاروق عبداللہ سمیت ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ایک اتحاد تشکیل دیا تھا، جس نے بی جی پی حکومت کے اقدامات پر سخت تنقید کی۔
والدہ کی حراست کے دوران ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لوگوں کو باخبر رکھنے والی سابق وزیر اعلیٰ کی بیٹی التجا مفتی نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ محبوبہ مفتی کی غیر قانونی حراست بالآخر ختم ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں ان تمام لوگوں کی بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے مشکل وقت میں میری مدد کی، گرفتاری کے بعد محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت، مقبوضہ جموں و کشمیر کو غزہ کی پٹی کی طرح بنانا چاہتی ہے اور یہاں وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جو فلسطین کے ساتھ اسرائیل کر رہا ہے۔
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت نے دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ایک امید لیے 1947 میں بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے میں غلط تھے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے رواں سال مارچ میں 8 ماہ بعد مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کی نظر بندی ختم کردی تھی۔
نظر بندی ختم ہونے کے بعد فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ میری آزادی کے لیے آواز اٹھانے والوں کا شکریہ لیکن یہ آزادی ابھی مکمل نہیں ہوئی جب تک دیگر تمام زیر حراست افراد بھی آزاد نہ کردیے جائیں اور اس وقت تک ان کی رہائی کے لیے سیاسی جدوجہد کرتا رہوں گا۔