کشمیری عوام، حق خودارادیت، اور افواج پاکستان کی ہمہ وقت تیاری

کشمیری عوام، حق خودارادیت، اور افواج پاکستان کی ہمہ وقت تیاری

(پاک صحافت) افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم کسی کو امن کے لیے ہماری خواہش کا غلط مطلب نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، افواج پاکستان کسی بھی قسم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان پر امن ملک ہے جس نے عالمی امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہیں، یہ وقت ہے کہ ہر سطح اور سمت میں امن کا ہاتھ بڑھایا جائے۔

پاکستان اور بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق پرامن انداز میں حل کرنا چاہیے تاکہ کشمیر میں انسانی المیے کا خاتمہ ہو۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق انہوں نے پاکستان فضائیہ کی اکیڈمی کی پاسنگ آئوٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

بری فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو انسانی المیہ قرار دیا ہے، ان الفاظ سے حالات کی سنگینی کا احساس کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقعے پر برطانیہ کی بدعہدی کی وجہ سے پیش آیا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت متصل مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل پاکستان کی ریاست قائم ہونی تھی۔

کشمیر پاکستان سے متصل مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن برطانیہ کے قائم کردہ بائونڈری کمیشن نے مشرقی پنجاب میں واقع گورداس پور اور پٹھانکوٹ کے اکثریتی اضلاع کو بھارت میں شامل کر دیا، یہ برطانوی حکومت کی طے شدہ بدنیتی تھی تاکہ بھارت کو سری نگر کا زمینی راستہ فراہم کر دیا جائے۔

اس طرح برطانیہ ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوتے اس خطے میں فساد کا بیچ بو گیا۔ اس وقت سے آج تک بھارت کی ہر حکومت کشمیر کو ناجائز طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتی رہی ہے۔

بھارت نے کشمیر پر فوجی طاقت سے قبضہ کیا اور آج تک قابض ہے، اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے سے ہوگا۔

اس کا وعدہ پہلی بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ میں کیا ہوا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ بھارت کی حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی فوج کے پہلے انگریز سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ بھارتی فوج کی مداخلت کو روکنے کے لیے جوابی کارروائی کریں لیکن انگریز فوجی سربراہ نے قائداعظم کے حکم کی تعمیل نہیں کی جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کا سبب بنا ہوا ہے۔

اس وقت سے لے کر آج تک دونوں ملکوں کے درمیان بلامبالغہ مذاکرات کے سیکڑوں دور ہو چکے ہیں لیکن ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

پاکستان کی حکومتوں نے ہمیشہ بھارت سے مذاکرات کرنے کو ترجیح دی ہے لیکن ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے بھارت مذاکرات سے بھاگتا رہا ہے، اس کا ایک ہی دعویٰ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کی دعویدار بھارت حکومت کشمیر کے باشندوں کو جمہوری حق دینے کو تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

حالانکہ بھارت کی پہلی حکومت نہرو کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے ایوان پر وعدہ کر چکی ہے کہ کشمیری عوام حق خودارادیت استعمال کرتے ہوئے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں گے۔

کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔

جتنی حکومتوں نے بھارت سے مذاکرات کیے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ کشمیر تسلسل سے آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں، کشمیریوں نے آزادی کے لیے جاری تحریک میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، خاص طور پر اگست 2019ء سے پورا کشمیر لاک ڈائون کا شکار ہے۔

کشمیری جیلیں آزادی کے مجاہدین سے بھری ہوئی ہیں، بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے کشمیر کے مسلمانوں کی صورت حال انسانی المیہ بن گئی ہے، جس کی طرف افواج پاکستان کے سربراہ نے بجا اشارہ کیا ہے۔

یہ صورت حال پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اور عوام دونوں کے لیے امتحان بن گئی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ عالمی سیاست کے فیصلے اصول اور ضمیر کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے کہ عالمی نظام سامراجیت اور استعماریت کا ورثہ ہے۔

تمام عالمی ادارے ایشیا و افریقہ کے غریب اور کمزور ممالک کو غلام رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اگر عالمی سیاست کے فیصلے اصول کے مطابق ہوتے تو فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا اب تک حل نکل آتا۔ آج کشمیر کے مسلمان جن حالات کا شکار ہیں اس کی وجہ پاکستان کے حکمرانوں اور قیادت کی مجبوری ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر کے سفیر ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے اقوام متحدہ میں ایک تقریر کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

حکومت کی کمزور سفارت کاری کی وجہ سے کشمیر سے دست برداری کے الزامات بھی عاید کیے جا رہے ہیں۔ ان الزامات سے قطع نظر بھارت آج کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم کر رہا ہے اس کی وجہ سے یہ ہے کہ اسے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔

یہ ذمہ داری پاکستان کے اوپر عاید ہوتی ہے، لیکن عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا کے دبائو کی وجہ سے پاکستان کے حکمران اپنا اصل کردار ادا نہیں کرتے یعنی طاقت کا استعمال۔ بھارت کے ساتھ مزاکرات کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے، بھارت میں ہر قسم کی حکومت آئی، لیکن مذاکرات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم سے نہیں روکا جا سکا۔

یہ بھی پڑھیں

میزائل

ایران کے میزائل ردعمل نے مشرق وسطیٰ کو کیسے بدلا؟

پاک صحافت صیہونی حکومت کو ایران کے ڈرون میزائل جواب کے بعد ایسا لگتا ہے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے