سعودی

ایجنٹ کے جھانسے میں نہ آیِئں، سعودی عرب میں آزاد ویزے کا کوئی تصور نہیں

ریاض(پاک صحافت) سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی موجود ہیں۔ یہاں پر ترقی کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے ہر وقت افرادی وقت کی طلب رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان سمیت مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ مملکت میں کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ مملکت میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کسی سعودی شخص یا کمپنی کے تابع ہوں جس کے تحت ان کے لیے اقامہ اور ورک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اُردو نیوز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سعودی وزارت افرادی قوت وسماجی بہبود مملکت کے نجی اور حکومتی شعبوں کی طلب کے مطابق بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کے لیے ورک پرمٹ (ویزے) جاری کرتی ہے۔ کمپنیوں کی طلب کے مطابق ورک ویزے جاری کیے جاتے ہیں جسے ان ممالک میں جہاں کے لیے ویزے جاری ہوتے ہیں ارسال کیا جاتا ہے۔ویزے منظور شدہ ایجینسیز کو ارسال کیے جاتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ’طلب ‘ کے مطابق کارکنوں کا ٹیسٹ لے کر انہیں مملکت روانہ کریں۔

سعودی عرب میں قانون کے مطابق ورک ویزے پرآنے والے غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ جس سپانسر کی زیرکفالت آئے ہیں، ان کے پاس ہی کام کریں۔خیال رہے کہ 14 مارچ 2021 سے تبدیل ہونے والے قوانین میں سپانسر کی زیرکفالت کے حوالے سے شرط ختم کر دی جائے گی اس کے بجائے معاہدہ ملازمت کی شرائط متعارف کرائی جائیں گی۔غیر ملکی ملازمین کے مملکت ا?نے کے بعد قانونی طور پرآجر اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازم کے حقوق ادا کرے اور قانون کے مطابق اسے جملہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔

ورک ویزے کے اہم نکات میں یہ شامل ہے کہ ویزے کے عوض رقم وصول نہیں کی جائے گی۔

اس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کا تحفظ ہے تاکہ آنے والے غیر ملکی یکسو ہو کر مملکت میں کام کریں۔

اس مد میں آجرکی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے کارکن کا اقامہ اور ورک پرمٹ سالانہ بنیاد پرتجدید کرائے اور ان کی میڈیکل انشورنس قانون کے مطابق کرائے۔یہ یاد رکھیں کہ سعودی عرب میں آاد‘ ویزے کا کوئی تصور نہیں اور نہ ہی عملی طور پر ایسا کوئی قانونی نکتہ ہے۔آزاد ویزے کی اصطلاح ایجنٹس کی پیدا کردہ ہے جس کا خمیازہ یہاں آنے والے تارکین کو بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ویزہ کی فیس مقرر ہے اور وہ اس شخص سے وصول کی جاتی ہے جو اپنے لیے بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔

سعودی عرب کے اداروں کی جانب سے ویزے کے حوالے سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مملکت میں ملازمت کے ویزے پرآنے والے اس امر کے پابند ہیں کہ وہ اپنے آجر کے پاس ہی کام کریں گے۔دوسری جگہ کام کرنے کے لیے انہیں باقاعدہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے جسے ’اجیر‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

کیبینیٹ

صیہونی حکومت کے رفح پر حملے کے منظر نامے کی تفصیلات

پاک صحافت عربی زبان کے اخبار رائے الیوم نے صیہونی حکومت کے رفح پر حملے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے