طالبان نے امریکہ پر طے شدہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کردیا

طالبان نے امریکہ پر طے شدہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کردیا

کابل (پاک صحافت) طالبان نے امریکہ پر الزام عائد کیا  ہےکہ واشنگٹن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے جس کی وجہ سے امن معاہدے کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے مذکورہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پیٹناگون نے کہا کہ طالبان معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد میں ناکام رہے ہیں۔

اس ضمن میں قطر میں موجود طالبان کے ایک ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور تقریباً ہر روز وہ اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ عام شہریوں، گھروں اور دیہاتوں پر بمباری کر رہے ہیں اور ہم نے وقتا فوقتا انہیں آگاہ کیا ہے یہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر مزید کہا کہ امریکا کے الزامات بے بنیاد ہیں اور طالبان معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کررہے ہیں۔

پینٹاگون کے چیف ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا فوج کے انخلا کے لیے پرعزم ہے لیکن معاہدے میں طالبان سے بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کریں اور تشدد کو کم کریں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ترک کرنے اور افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے خلاف پرتشدد حملوں کو روکنے سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے بغیر مذاکرات کے حل کے لیے راستہ نکالنا بہت مشکل ہے، ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہم اب بھی اس کے پابند ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی فوج نے حالیہ مہینوں میں کچھ صوبوں میں افغان فورسز کے دفاع میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

افغانستان میں تشدد کی نئی لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا تھا، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا تھا، جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18واضح رہے کہ  مئی 2020 سے قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں

خشونت

فلسطینی حامی طلباء کے خلاف امریکی پولیس کے تشدد میں اضافہ

پاک صحافت امریکہ میں طلباء کی صیہونی مخالف تحریک کی توسیع کا حوالہ دیتے ہوئے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے