یوم یکجہتی کشمیر

یوم یکجہتی کشمیر، مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف اور بھارتی مظالم پر عالمی ردعمل

(پاک صحافت) بین الاقوامی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے گو کہ کورونا کا وبائی عفریت فی الوقت بعض اہم فیصلوں اور اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہے لیکن عالمی سطح پر فیصلے ہوچکے ہیں، درحقیقت کورونا کی صورتحال ہی تاخیر کا باعث ہے۔

ان تبدیلیوں کے اثرات صرف جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہورہے ہیں اور خطے میں دلچسپی رکھنے والی عالمی طاقتوں کیلئے پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے بھی چونکہ اہم ہے اس لیے پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اس صورتحال کے پیش نظر عالمی طاقتوں کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں ظاہر ہے کہ اگر ترجیحات بدلیں گی تو ممالک اپنی خارجہ پالیسی بھی تبدیل کرینگے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے عمل میں مصروف ہے تاہم بعض حوالوں سے صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی مستقل ہوتی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم حوالہ مقبوضہ کشمیر ہے جس پر پاکستان کی ہر حکومت نے ایک ہی موقف اختیار کیا ہے۔

گو کہ اس حوالے سے کئی بار اس مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز، سفارشات، بیک ڈور رابطوں اور مذاکرات کی کوششیں کی گئیں اور امکانات پر بات ہوئی لیکن پاکستان کبھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ گزشتہ پچھلے کچھ عرصے اور بالخصوص موجودہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے غیر روایتی اور غیر معمولی انداز میں پیش رفت کی ہے۔

بالخصوص وزیراعظم عمران خان کا اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب اور مختلف عالمی فورمز پر تقاریر میں کشمیر کا تذکرہ اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں اس موضوع کو اہمیت کے ساتھ زیر بحث لانا بھی شامل ہے۔

یہ بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ ایک طرف جہاں بھارت کو اس حوالے سے روایتی ہٹ دھرمی پر اہم پلیٹ فارمز پرہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وہیں2019 کے بعد دنیا کی مختلف پارلیمانز، انسانی حقوق کے اداروں، عالمی سول سوسائٹی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت اور پاکستان کے موقف میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد میں لگاہواکرفیو کلاک 5اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں لگائے گئے کرفیو کے ہر گزرتے دن کی نشاندہی کررہا ہے، تاہم اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اہم حکومتوں اور اس مقصد کیلئے قائم بعض اداروں کی جانب سے وہ حمایت اور بیانیہ سا منے نہیں آیا جن کی توقعات تھی بالخصوص ان اسلامی ممالک کی جانب سے جنہیں پاکستان برادر اسلامی ملک قرار دیتا ہے، تاہم اس حوالے سے بالخصوص برادر اسلامی ملک ترکی کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، اس ضمن میں قدرے افسوس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم(OIC) کی خاموشی اور مصلحت آمیز طرز عمل کا بھی شکوہ ہوگا جب پاکستان کی جانب سے کشمیر کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی تو اسے درخود اعتنا نہ سمجھا گیا اور پھر جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ عندیہ دیا کہ اگر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور وہاں کئے جانے والے اقدامات کے پیش نظر اسلامی تعاون کا اجلاس فوری طور پر نہیں بلایا گیا تو پاکستان اپنے طور پر اس حوالے سے پیش رفت کرے گا ۔

جس پر ناخوشگوار طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا جو ناراضی کا اظہار بھی تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم واستبداد ا ور جبر کا سلسلہ جاری رہا وہیں پاکستان میں موجودہ حکومت کے دوران ہی مودی حکومت نے وہاں ایسے اقدامات بھی کئے جس سے پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کی بقا اور آزادی کو شدید نقصان پہنچا۔

5 فروری دنیا بھر میں موجود پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور کئی دہائیوں سے ظلم و نا انصافی کا شکار اپنے عزم اور موقف پر ڈٹے رہنے والے کشمیری مقبوضہ کشمیر سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں ۔

لیکن اس مرتبہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور خود پر ہونے والے مظالم ناانصافیوں اور بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے انہیں جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا ، جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔

اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیر ا فراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں، جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

بھارتی آئین میں آرٹیکل35A اور آرٹیکل 370 کیا ہے اس کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس معاملے کے دو حصے ہیں۔ پہلے مرحلے1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو و ادی کا حکمران تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی واضح اکثرت کی حامل ریاست تھی اس لئے فطری طور پر اسے پاکستان کا حصہ بننا تھا۔1947 میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور طاقت کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔

اس دستاویز میں بھی مہاراجہ نے صرف جنگلوں میں اپنی خود مختاربھارت کو منتقل کرنے کی حامی بھری، دفاع خارجہ امور اور مواصلات اس کے علاوہ تمام امور پر جموں وکشمیر کے عوام اور انکی اسمبلی کا حق تھا او وہ ان کے انتظام انصرام اپنی مرضی سے چلانے کیلئے بااختیار تھے تاہم بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین بن رہا تھا اور ریاست نے اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی گئی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 بھی شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں تھا۔

اس کی بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ سے جبراً دستخط کرائے تھے لیکن بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی صورت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے۔

یہ ایک بڑی تشویش کی بات تھی اور کشمیری عوام اس بات کو قبول کرنے کیلئے کسی صورت بھی آمادہ نہیں ہوسکتے تھے کہ وادی میں ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے ،اس بات کا اندازہ یا خوف کشمیریوں کو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ آزادی سے قبل ہی ایک سے زیادہ مواقعوں پر یہ اندیشہ پیدا ہوا۔

ایک موقعہ پر اس وقت بھی جب مقامی آزادی کے خدشات دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے وہ احکامات جاری کئے جسکی رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ ان کے علاوہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں ر کھتا اور انہیں سرکاری نوکریاں اورسرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحانہ رسائی ہوتی تاہم ضرورت اس بات کی تھی ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے لیکن دوسری جانب بھارتی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں کشمیری آئین ساز اسمبلی سے الحاق کے دستاویز کی منظوری کا انتظار کررہی تھی۔

اس پس منظر میں وزیراعظم نہرو نے کشمیری قیادت کے ساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پا گیا جب کے تحت مذکورہ آئینی تحفظات فراہم کر دیئے جائیں گے اورکشمیر آئین ساز اسمبلی دستاویز الحق کی توثیق کر دے گی۔

چنانچہ اس تناظر میں 1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35A ایک صدارتی حکم کے ذریعے شائع کر دیا گیا کہ اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو یہ اختیارات حاصل ہونگے ۔ (اول) ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کریگی کہ مقامی شہری(کشمیری) کون ہے۔(دو) ایسے مقامی اور مستقل شہریوں کو خصوصی توجہ دینی ہوگی ۔

جس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا جبکہ دیگر لوگوں کو رہائش کی مشروط اجازت دینا۔ مقامی شہریوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیح کی فراہمی اور جائیداد کا حق مقامی شہریوں تک محدود کرنا۔ لیکن جموں و کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے وار سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جموں وکشمیر کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی ریاست کے شخص سے شادی کرے تو اس خاتون کو جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جائے گی۔

اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو بھی جموں وکشمیر کی شہریت مل جاتی ہے۔ جموں وکشمیر ہندوستان کے ترانے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہیں۔ یہاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا حکم بھی قابل قبول نہیں۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے۔

بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں وکشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا اور یہ قانون صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز دیگر سرکاری اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر بلا قانونی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتیں۔ جموں وکشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہاں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔

جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک شیلٹر کی حیثیت رکھتا تھا، جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل360 کے تحت بھارت کی وفاقی حکومت کسی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے۔ تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے خلاف پوری وادی میں احتجاج کو کم وبیش طویل عرصہ ہونے کو آیا ہے ،لیکن حالات نہ صرف بدترین ہو چکے ہیں بلکہ ان میں بہتری تو کجا معمول پر آنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

5 اگست 2019 سے نافذ کئے جانیوالا کرفیو ابھی تک جاری ہے پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن خبر کے ذریعے خاموش کی جانے والی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں، احتجاج کررہی ہیں، التجا کررہی ہیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں جنہیں سننے کے لئے سماعتوں کی نہیں بلکہ دل اور بیدار ضمیر کی ضرورت ہے بھارت نے غیر ملکی صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے البتہ اپنے ہم خیال طبقات کو وہاں لے جانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل نئی دہلی میں متعین غیر ملکی سفیروں کو وادی کا دورہ کرانے کی دعوت دی گئی تو ان شخصیات کو فہرست میں شامل نہیں کیاگیا جنہوں نے و ادی میں آزادانہ گھوم پھر کرعوام کے جذبات جاننے اور حالات کا اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی کشمیری رہنمائوں آل پارٹی حریت کانفرنس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سے رابطہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے چنانچہ سفیروں اور دیگر سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ کرنے سے انکار کردیاتھا ۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے