مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ اور ویٹو پاور ممالک کی خیانت

مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ اور ویٹو پاور ممالک کی خیانت

(پاک صحافت) 5 فروری آیا اور گزر گیا، 22کروڑ غیور عوام نے سب کام چھوڑ کر سارا دن اقوام متحدہ نامی بھینس کے آگے بین بجانے میں گزارا کہ شاید اْس کے کانوں پر جوں رینگ جائے، لیکن 70 سال کی طرح اس بار بھی بھینس نے جگالی نہیں چھوڑی، اور شاید اگلے 70 سال تک اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئے، کیونکہ یہ معاملہ Clash of Interests یعنی مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں بیٹھے جغادریوں کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل کسی بھی طرح ان کے مفاد میں نہیں، اس لیے وہ لوگ اس کے حل کی طرف نہیں آتے، دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین کی قائم کردہ یہ تنظیم کچھ اداروں کا مجموعہ ہے، اس میں سلامتی کونسل سب سے اہم ادارہ ہے۔

اس کے مستقل ارکان میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں، جن کو ویٹو پاور حاصل ہے یعنی ان کے مفادات کے خلاف کوئی بھی قرارداد پاس نہیں ہوسکتی، کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، یہاں قراردادیں چیپٹر سکس یا چیپٹر سیون کے تحت پاس ہوتی ہیں، چیپٹر سیون میں پاس کردہ قرارداد بائنڈنگ ہوتی ہے، یعنی اْس پر عمل درآمد ضروری ہے، جبکہ سکس کے تحت پاس کردہ قرارداد میں فریقین کی مرضی ہے کہ وہ مانے یا نہ مانے، جیسے اسرائیل کے خلاف تمام قراردادیں چیپٹر سکس کے تحت پاس ہوتی ہیں۔

اب اسرائیل ان کو کتنا خاطر میں لاتا ہے یہ سب کو معلوم ہے، جبکہ ایران کے خلاف قراردادیں چیپٹر سیون کے تحت پاس ہوتی ہیں اس لیے اس پر فوراً پابندیاں لگ جاتی ہیں، یہ ممالک اگر چاہیں تو 5 منٹ میں قرارداد منظور کرکے بھارت اور پاکستان کو مسئلے کے حل پر مجبور کر سکتے ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کریں گے، کیوں؟ اس کے لیے ہم کو ایک ایک کرکے ہر ملک کا جائزہ لینا ہوگا۔
کشمیر اس وقت دنیا کا Highly Militarized Zone ہے، یہاں پر انڈیا کی 3 کور یعنی چودہ کور لیہ، پندرہ کور سری نگر اور سولہ کور نگروٹا میں تعینات ہیں، جبکہ پاکستان کی طرف سے دس کور راولپنڈی، فورس کمانڈ گلگت کے علاوہ ون کور منگلا بھی کشمیر کے محاذ پر تعینات ہے۔

اسی طرح چین کی مغربی کمانڈ تھیٹر بھی یہاں تعینات ہے۔ یہ کل ملا کر تقریباً 20 ڈویژن اور 18 برگیڈ فوج بنتی ہے، سرحدی محافظ فورس اس کے علاوہ ہے، یہ کتنی بڑی فوج ہے آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں۔ یہ فوج جو کشمیر کے سوا لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر تعینات ہے، یہ فوج براعظم یورپ کی تمام فوج سے زیادہ ہے، اس طرح مصر کو چھوڑ کر براعظم افریقا کی تمام فوج سے زائد بنتی ہے، اور براعظم جنوبی امریکا کی کل آرمی اس سے کم ہے۔
یہاں پر برسرِ پیکار تینوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں، اور مسئلہ کشمیر صحیح معنوں میں نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے، یہاں پر تعینات فوجوں کے پاس دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہیں، اور یہ تمام ہتھیار وہ اقوام متحدہ میں بیٹھے بڑوں سے خریدتے ہیں۔

پاکستان امریکی اسلحے کا بہت بڑا خریدار ہے، پاکستان کے پاس امریکی ساختہ F-16 بلاک 15 کے 2 اسکواڈرن اور بلاک 52 کے 2 اسکواڈرن ہیں، ان طیاروں کے تمام اسپیئر پارٹس امریکا سے آتے ہیں، جو بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں، لیکن معاہدہ کے مطابق ان کمپنیوں سے اسپیئر پارٹس خریدنا لازمی ہے، اور آپ کہیں سے یہ نہیں لے سکتے اور نہ خود سے بنا سکتے ہیں۔

اسی طرح نیوی کے زیرِ استعمال P3-C اورین اور ایٹلانٹک طیارے بھی امریکی ساختہ ہیں، F-16 طیارے امریکا کی لاک ہیڈ مارٹن کمپنی بناتی ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی بھی ہے، اس کمپنی کی اچھی خاصی سرمایا کاری امریکی الیکشن میں ہوتی ہے اور اس کو اپنے مفادات کی تحفظ کرنا آتا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیر پر پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اْٹھا کر امریکا نے 70 سال تک پاکستان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا، چاہے وہ پشاور میں U2 کا اڈا ہو، افغانستان سے روس کو مار بھگانا ہو یا امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ ہر دور میں پاکستان کو کشمیر کاز پر بلیک میل کیا گیا ہے، اور اب بھارت کی باری ہے۔

امریکا کو اب چین کے خلاف بھارت کی ضرورت ہے، اور کشمیر اس کے لیے بہترین فیکٹر ہے، دوسرا ملک روس ہے جو بھارت کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا سپلائر ہے، انڈین Mig-21, Mig-29, Su-27 سمیت تمام ہتھیار روسی ہیں، اسی طرح چین کے بنائے گئے F-7, J-10, J-11, F-20 سب روس کے مہیا کردہ طیاروں کی Reverse Engineering ہیں۔

پاکستان اور چین کے مشترکہ طیارے JF-17 کا انجن بھی روسی ساختہ ہے، پاکستانی ہیلی کاپٹر M1-17 بھی روسی ساختہ ہے، انڈین ائر کرافٹ کیرئیر وکرم ادتیا بھی روسی ہے، روس ہی نے S-400 اینٹی میزائل سسٹم انڈیا اور چین کو بیچا ہے اور مستقبل میں اس کے چین اور بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی سازوسامان فروخت کرنے کے معاہدے ہیں۔

تیسرا ملک فرانس ہے جس نے حال ہی میں بھارت کو جدید ترین رافیل طیاروں کے 2 اسکواڈرن دیے ہیں، بھارت کو اپنی فضائی ضروریات کے لیے فوری طور پر 8 مزید اسکواڈرن کی ضرورت ہے جس کے لیے امریکا، روس اور فرانس کے درمیان شدید رسہ کشی چل رہی ہے۔

یہ ممالک اپنے ہتھیار بیچنے کے لیے بھارت میں زوردار لابنگ کر رہے ہیں، امریکا اپنے F-35 روس اپنا Mig-57 جبکہ فرانس رافیل طیارے بیچنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں، اس سے پہلے میراج-200 کے 2اسکواڈرن بھی انڈیا کے پاس ہیں۔

پاکستان کے پاس میراج- 5 اور میراج- 3 طیارے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ فالکن طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی فرانسیسی ساختہ ہیں، پاکستان کے پاس فرانس کی بنی آگسای آبدوزیں ہیں۔

سلامتی کونسل کا چوتھا ملک برطانیہ ہے، برطانیہ مسئلہ کشمیر کا سب سے زیادہ کماؤپوت ہے، یہ برطانوی کمپنی ہی تھی جس نے 1984 میں بھارت کو بتایا تھا کہ پاکستان نے برفانی علاقے میں استعمال ہونے والے سازوسامان کا آرڈر دیا ہے، یہ سن کر بھارت کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں، بعد میں اسی کمپنی نے بھارت کو خبر دی کہ پاکستان یہ سامان سیاچن پر قبضے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

اس کے بعد بھارت نے 13 اپریل 1984 کو آپریشن میگھدوت کے ذریعے سیاچن کے 60فی صد حصے پر قبضہ کرلیا۔ حالانکہ پاکستان کے فرشتوں کو بھی ابھی اپنے اس ارادے کا علم نہیں تھا۔

پاکستان بھی یہ بے مقصد جنگ لڑنے پر مجبور ہوگیا، اب دونوں ممالک ہر روز 25کروڑ روپے اس بے مقصد جنگ پر صرف کرتے ہیں، اور یہ تمام سامان دونوں ممالک اسی برطانوی کمپنی سے منہ مانگے داموں خریدتے ہیں، یہ کمپنی قیامت تک اس مسئلے کے حل کے خلاف ہے۔

اب رہ گیا چین تو اکیلا چین کچھ بھی نہیں کرسکتا جب تک دوسرے ممالک اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے جو خاصا مشکل کام ہے، تو میرے عزیز ہم وطنو! اگر ہم واقعی مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں تو پھر ہم کو Out of the Box جا کر سوچنا ہوگا، اور اقوامِ متحدہ پر انحصار کے بجائے دیگر آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے