جوبائیڈن اور افغان امن معاہدے کا خاتمہ

جوبائیڈن اور افغان امن معاہدے کا خاتمہ

(پاک صحافت) امریکا کے نئے سیکرٹری اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اپنی پہلی پریس کانفرنس اور اس کے چند گھنٹوں بعد صدر جوبائیڈن نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکا اور طالبان معاہدہ جو فروری 2020ء کو ٹرمپ نے کیا تھا اس کی اب کوئی حیثیت نہیں۔

قبل ازیں سیکرٹری اسٹیٹ بھی اس سلسلے میں اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے سینیٹ میں کہہ چکے ہیں امریکا طالبان معاہدے کا جائزہ لیا جائے گا لیکن اب یہ معاہدہ اشرف غنی اور بھارت کے اصرار پر ختم کرنے کا اعلان کچھ اس طرح کیا جارہا ہے امریکا کسی صورت افغانستان سے اپنی بقیہ فوج واپس نہیں بلائے گا اور پینٹا گون نے افغانستان کے لیے نئی تازہ دم افواج بھیجنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کی فوج صدر ٹرمپ کے اعلان اور پینٹا گون کی مخالفت کے باوجود اچانک افغانستان سے کیوں نکل گئی ہیں اور اس پوری صورتحال میں امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن کیوں خاموش ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ ترین فوجی افسر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کی واپسی کا انحصار تشدد میں کمی اور طالبان کے ساتھ فروری 2020ء میں طے شدہ دیگر شرائط پر عملدرآمد، طالبان کے حملوں میں کمی اور کابل حکومت کے ساتھ ان کے امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر منحصر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا معاہدہ اور افواج کے انخلا کا منصوبہ حالات کے ساتھ مشروط ہے، امریکا اس جنگ کو ذمے داری اور سوچ سمجھ اپنی شرائط کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کر ے گا جو افغانستان میں امریکی قومی مفادات کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں۔

یہی کچھ عالمی اخبارات اور جرائد 14جنوری 2021ء تک کہتے رہے لیکن اب یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکا کی صرف ڈھائی ہزار فوج موجود ہے اور فروری 2020ء میں اس کو بھی یہاں سے نکلنا ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کٹوتی کا اعلان گزشتہ برس نومبر میں کیا تھا اور اسے اب عملی جامہ پہنایا جانا ہے۔ ٹرمپ نے جاتے جاتے اس بارے میں اپنا ایک مختصر بیان بھی جاری کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ گزشتہ انیس برسوں میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی سب سے کم تعداد ہے۔

کئی امریکی اور ناٹو کمانڈرز نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے قبل از وقت انخلا سے خبردار کیا تھا تاہم ٹرمپ نے 20جنوری 2020ء سے قبل چند ہفتوں کے دوران افغانستان سے ڈھائی ہزار اور عراق سے پانچ سو امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلا لیا ہے۔

لیکن یہ سب افغانستان میں اس لیے ممکن ہوا کہ طالبان نے اپنی بھر پور صلاحیت سے امریکا کو انتہائی عجلت کے عالم میں افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

امریکا اب بھی افغانستان میں وہی غلطیاں کرنے پر تلا ہوا ہے، جن کا ارتکاب افغانستان پر قبضے کے آخری اَدوار میں برطانیہ اور سویت یونین نے کیا تھا۔ گزشتہ دونوں عالمی طاقتوں کی طرح اب امریکا بھی اسی انجام سے دوچار ہوا چاہتا ہے۔

برطانیہ اور سویت یونین دونوں وہاں سے نکلنے کے بعد وہاں اپنا قبضہ بھی باقی رکھنا اور اپنے بعد وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر مُصر تھے۔

اب امریکا بھی وہاں اپنے مضبوط فوجی اڈے باقی رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے اور وہاں سے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت اور نظام بھی اپنی مرضی کا چاہتا ہے۔

امریکا کا اشتراکی روس کے خلاف جنگ میں افغان عوام کی مدد کرکے ایک ہدف حاصل کرنا یقینا اس کے پیش نظر تھا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی بھی غیر اعلانیہ، مگر بڑا واضح ہدف تھا۔

اشتراکی روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت نہ بننے دینا اور مختلف افغان دھڑوں اور جنگی سرداروں کے اختلافات اور لڑائیوں کو بڑھانے کے لیے ان کو ہلکے اور بھاری اسلحہ دے کر آگ پر مسلسل تیل چھڑکتے رہنا بھی انہیں مقاصد کے حصول کے لیے تھا۔

امریکا کی قومی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ 23جنوری 2021ء کو صدر بائیڈن کے نئے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمد اللہ محب سے رابطہ کیا ہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ امریکا اس معاہدہ کا جائزہ لینے کا خواہش مند ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ طالبان اس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں یا نہیں۔

ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سلیوان نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے امریکی حمایت پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ٹرمپ نے طالبان سے معاہدہ کرتے وقت ان کو بے پناہ سہولتیں دے دی ہیں اور امریکا کی نئی انتظامیہ اس کا جائزہ لیتے ہو ئے اس کو ختم کرے۔

امریکی ایوان صدر کی ترجمان ایملی ہورن نے ایک بیان میں وہی کہا کہ جس کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنا قبضہ اور بعد میں وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر اصرار کر رہا ہے۔

سلیوان نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا ایک مضبوط اور علاقائی سفارتی کوششوں کے ذریعے افغان امن عمل کی حمایت کرے گا، جس کا مقصد دونوں فریقوں کو پائیدار اور انصاف پسندانہ سیاسی تصفیہ اور مستقل جنگ بندی کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہوگا۔

امریکا کا یہ بھی الزام ہے 1990 کی دہائی میں طالبان کے دور میں خواتین کو اسکول جانے یا ملازمت کی اجازت نہیں تھی۔ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ اب خواتین کی تعلیم، یا ان کے کام کرنے کی مخالفت نہیں کرتے ہیں، لیکن افغانستان میں بہت سے لوگوں میں اس حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔

اول تو یہ الزام بے معنیٰ تھا اس کی وجہ اس وقت افغانستان سویت یونین سے جنگ کے بعد ایک تباہ حال افغانستان تھا جہاں پورے تعلیمی نظام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا اور یونین کے خاتمے کے بعد امریکا افغانستان سے ایسا بھاگا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

اس وقت افغانستان میں امریکا کے تقریباً 2500 فوجی تعینات ہیں جو اس جنگ کے 20 برس قبل آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔

طالبان نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ اگر تمام بین الاقوامی فوجیوں کو موسم بہار سے قبل واپس نہیں بلایا جاتا جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے قبول کیا تھا تو وہ دوبارہ بین الاقوامی فوجوں پر حملے شروع کر دیں گے۔

بائیڈن بھارت کو جنوبی ایشیا اور بحرالکاہل کا ویسا ہی حکمران بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ اس نے اسرائیل کو عربوں پر مسلط کر رکھا ہے، لیکن جو بائیڈن کو اس بات کا اچھی طرح علم نہیں ہے کہ امریکا پاکستان اور طالبان کے بغیر افغانستان میں نہیں رہ سکتا ہے نہ ہی وہاں سے نکل سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

میزائل

ایران کے میزائل ردعمل نے مشرق وسطیٰ کو کیسے بدلا؟

پاک صحافت صیہونی حکومت کو ایران کے ڈرون میزائل جواب کے بعد ایسا لگتا ہے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے