امریکہ چین

ڈوبتا امریکہ اور طلوع ہوتا چین!

اسلام آباد (پاک صحافت) گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ٹھیکہ داری اور دیگر ممالک پر طاقت کے ذریعے حکومت و بدمعاشی کرنے والے امریکہ کا سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں چین عالمی سپر پاور کے طور پر دنیا کے نقشے میں ابھر رہا ہے۔ اگلے چند سالوں میں عالمی سطح پر بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی سیاسی، اقتصادی اور سماجی منظر نامہ بھی تبدیل ہوگا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے دنیا کو پتہ چل گیا تھا کہ امریکہ اب عالمی قیادت کرنے کے قابل نہیں رہا اور امریکی بنیاد پرست بن چکے ہیں۔ انہوں نے ذاتی تحفظ کے لئے دنیا کے امن، سلامتی اور آزادی کو شدید نقصان پہنچایا۔ پینٹاگون میں موسمیاتی تبدیلی سے انکار کرنے والے واشنگٹن نے موسمیاتی تبدیلی کوسب سے زیادہ متاثر کیا۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ وائٹ کرسچن بالادستی کے نظریے نے امریکہ کو تقسیم کیا۔ کالوں، ہسپانویوں، مسلمانوں اور دوسرے تارکین وطن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جو جدید جمہوریتوں کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے جس نے یقینی طور پر وائٹ ہاؤس کی طاقت کو غیر مستحکم کیا۔ امریکہ اب جمہوریت اور آزادی کا چیمپئن نہیں رہا جو غیر منطقی فیصلوں سے اسرائیل جیسی قوموں کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی بھرپور خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ امریکیوں نے اپنے انحراف شدہ رہنما اصولوں پر عمل کیا تھا تو سپر پاور بنے تھے۔ طاقت اور کساد بازاری نے جرمنی، برطانیہ اور اٹلی جیسی یورپی اقوام کو پہلے ہی چینی روسی بلاک کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا تاکہ دوطرفہ تعلقات کے ذریعے اپنی معیشت کو بچایا جاسکے۔ یورپ اب امریکہ کا سیٹلائٹ نہیں ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ مستقبل میں مزید ممالک اس بلاک میں شامل ہوں گے۔ ہندوستان اور ترکی جیسی اقوام بھی ٹھوس پیشرفت پر غور کر رہی ہیں۔ ہندوستان ابھی تک مغرب کے زیر اثر ہے۔ وہ امریکہ اور برطانیہ کو اپنا رول ماڈل مانتا ہے۔ ترکی نے اپنے قومی اداروں کو مستحکم کیا ہے۔ اس نے فوج بمقابلہ جمہوریت اور حکمرانی کی پیچیدگیوں کو دور کیا ہے۔ اردوان حکومت نے معاشی حالت بہتر بنائی، سفارتی تعلقات کو بڑھایا اور معاشرتی شعبوں میں قوم پرستی کو فروغ دیا ہے، ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے متعدد پہلوؤںسے نتائج امید افزاہوں گے ۔

امریکیوں کو بنیادی طور پر جغرافیائی سیاست کے کاروباری کہا جاسکتا ہے۔ ان کے لئے جنگ بھی ایک کاروبار ہے جس کا منافع پوری قوم کو چلاتا ہے لیکن اس کے برعکس چین اجتماعی فوائد پر یقین رکھتا ہے۔ اس نے دنیا کے سرمایہ داروں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چین نے دنیا بھر سے وسائل خرید کر، ان وسائل سے سستی مزدوری کی بدولت مصنوعات دنیا بھر میں فروخت کر کے کامیابی کے ساتھ اپنی مہارت اور آبادی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ چین کی طاقت مستقل طور پر بڑھ رہی ہے جسے وہ مزید بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ اس نے لداخ میں ہندوستان کی دھمکیوں کا جارحانہ انداز میں جواب دیا اور امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے بحرالکاہل میں قابل ذکر فورسز کو تعینات کیا۔ اس کے باوجود کہ تائیوان اور ہانگ کانگ سے متعلق اقوام متحدہ میں اس کے خلاف سخت حکمت عملی اختیار کی گئی، چین متوازن رد عمل کی عمدہ مثال پیش کرتا رہا۔ نیو ورلڈ آرڈر اور ایک نئی سپر پاور ابھرنے کو ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی نئی سپر پاور لالچ، دولت اور طاقت کی ہوس کے لئے کی جانے والی تباہی کی بجائے اپنے وژن اور انسان دوست ایجنڈوں میں اجتماعی پیشرفت کے ساتھ غلبہ حاصل کرے گی۔

اس وقت کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ چین اپنی بہترین سیاسی، سفارتی اور تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک نیا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے اور بیشتر ممالک چین کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ اور چین سپر پاور کی جانب بڑی تیزی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

اجتماعی قبر

غزہ کی اجتماعی قبروں میں صہیونی جرائم کی نئی جہتوں کو بے نقاب کرنا

پاک صحافت غزہ کی پٹی میں حکومتی ذرائع نے صہیونی افواج کی پسپائی کے بعد …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے