پاک صحافت عرب دنیا کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے صیہونی حکومت کی شام پر حملوں کے حوالے سے امریکہ اور تل ابیب کی واضح ہم آہنگی پر روشنی ڈالی ہے۔
ایرنا کی ہفتہ کی رپورٹ کے مطابق، عبدالباری عطوان نے "رائے الیوم” میں شائع اپنے مضمون میں شام کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: "جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن انقرہ کے دورے کے دوران، شام میں اسرائیل کے وسیع حملوں، اسلحے اور گولہ بارود کے ذخائر، جہازوں، فوجی اڈوں، ہوائی اڈوں اور جنگی طیاروں کی تباہی کی حمایت کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ شام کے واقعات میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں ایک اہم شراکت دار بھی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ بلینکن، جو غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے منصوبہ سازوں میں شامل ہیں، ان حملوں کو یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ "اسرائیل کے سیکڑوں حملے شام کے اسٹریٹجک فوجی مراکز پر اس لیے کیے گئے کہ یہ ہتھیار غلط لوگوں کے ہاتھ میں نہ جائیں۔” لیکن ہم نہیں جانتے کہ بلینکن کا "غلط لوگ” سے کیا مطلب ہے۔ شام کا سابقہ نظام پہلے ہی گر چکا ہے، اس کی فوج شکست تسلیم کر چکی ہے، اور نیا نظام، جو اب اقتدار میں ہے، امریکہ اور اس کے ترک اتحادی کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ان حملوں کی مذمت میں ایک بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔
عبدالباری عطوان نے مزید کہا: "جو بات ہم جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ بلینکن اور ان کے وائٹ ہاؤس کے آقا، چاہے وہ بائیڈن ہوں یا ٹرمپ، لبنان یا فلسطین کی مزاحمت کی حمایت کرنے والے ہر ملک یا نظام کو ختم کرنے اور ان کے ہتھیار چھیننے کے خواہاں ہیں۔”
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تباہ شدہ ہتھیار، جن کی مالیت دسیوں ارب ڈالر ہے، سابقہ نظام کی ذاتی ملکیت نہیں تھے بلکہ یہ شامی عوام کی جائیداد تھے۔ ان کی تباہی شام پر ایک سنگین حملے کے مترادف ہے۔
عطوان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: "افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے ان حملوں کی مذمت کی ہے، جبکہ زیادہ تر عرب ممالک نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، گویا شام جنوبی امریکہ کا کوئی ملک ہے۔ یہ وسیع اسرائیلی حملے شام کے سابقہ نظام کے خاتمے اور بشار الاسد کی روس میں پناہ لینے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر کیے گئے۔”
رائے الیوم کے ایڈیٹر نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کے حملوں اور شام کے ہتھیاروں کی تباہی کی وجہ یہ خوف ہے کہ یہ ہتھیار شام کے کسی ایسے گروہ کے ہاتھ میں نہ آ جائیں جو مستقبل میں مزاحمت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ انہوں نے کہا: "شام، لیبیا، تیونس یا مصر نہیں ہے، اور امریکہ، ترکی اور اسرائیل کے مشترکہ اہداف یہاں کامیاب نہیں ہوں گے۔”