پاکستان نے کورونا وائرس ویکسین کی خریداری کے لیے مختص اپنے فنڈز کو 25 کروڑ ڈالر تک بڑھا دیا اور مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ سامنے نہ لانے والے معاہدوں پر دستخط کردیے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت وصول کنندہ ملک ویکسین کی معلومات عام نہیں کرسکے گا، خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے ویکسین کے لیے 15 کروڑ ڈالر مختص کیے تھے۔
اس حوالے سے قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) کی پارلیمانی سیکریٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے ایک نجی اخبار کو بتایا کہ ویکسین کی خریداری کے لیے مختص رقم کو 25 کروڑ ڈالر تک بڑھا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک سے زیادہ کمپنی کے ساتھ خریداری کا معاہدہ کریں گے تاکہ (دستیاب ویکسین کی ناکامی کی صورت میں) ہم ویکسین کا حصول یقینی بناسکیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں روس نے اپنی ویکسین کی پیشکش بھی کی تھی، ہم اس کی حفاظت اور افادیت کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ عوام کی صحت ہماری اولین ترجیح ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا ویکسین کب دستیاب ہوگی تو ڈاکٹر نوشین کا کہنا تھا کہ یہ امید ہے کہ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک ویکسین کی ڈیلوری شروع ہوجائے گی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر کسی کو ویکسین دینے نہیں جارہے، ہماری ترحیجی فہرست کے مطابق پہلے مرحلے میں کووڈ 19 مریضوں کو دیکھنے والے ہیلتھ کیئر ورکرز اور 65 سال سے بڑے افراد کو ویکسین دی جائے گی، دوسرے مرحلے میں باقی ہیلتھ کیئر ورکرز اور 60 سال سے بڑے افراد کو ترجیح دی جائے گی۔
مزید یہ کہ انہوں نے بتایا کہ گاوی کی جانب سے بھی 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جس میں تقریباً 45 کروڑ لوگ آتے ہیں، ڈاکٹر نوشین کا کہنا تھا کہ 2021 کے اختتام تک یہ (ویکسین) عوام کے لیے دستیاب ہوگی۔
اس موقع پر ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ فائزر کی جانب سے ویکسین کو ٹھنڈی جگہ (کولڈ چین) میں رکھنے کے لیے خصوصی کنٹینرز کی پیشکش کی تھی جبکہ ویکیسن کو 5 دن کے لیے عام فریزر میں رکھا جاسکتا ہے۔
ادھر وزارت قومی صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پوری دنیا میں 6 ممکنہ کمپنیاں ہیں اور وزارت ان کے ساتھ نہ صرف رابطے میں ہے بلکہ کچھ کے ساتھ سامنے نہ لانے والے معاہدے بھی کیے جس کی وجہ انہوں نے ڈیٹا شیئر کیا اور ویکسین ٹرائل کی پیش رفت سے بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی ویکسین بھی اس وقت پاکستان میں انڈر ٹرائل ہے اور ہم ترجیحی بنیادو پر ویکسین حاصل کرلیں گے، مزید یہ کہ کمپنی کی جانب سے ضمانت دینے کے بعد ہم فروری کے آخر یا مارچ تک ایک لاکھ سے 5 لاکھ کے درمیان خوراک حاصل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ویکسین انتہائی ضرورت کے حامل افراد کو لگائی جائے گی جیسا کہ وہ ہیلتھ پروفیشنلز جو کووڈ 19 مریضوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں رواں ماہ یا آئندہ سال کے شروع میں ویکسین کا انتظام نہیں کیا جاسکتا تو عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور فنڈز ضائع ہوسکتے ہیں کیونکہ اس میں رسک فیکٹر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ کینیڈا کی آبادی صرف 4 کروڑ ہے لیکن اس نے 25 کروڑ خوراک کے لیے مختلف کمپنیوں کو پیشگی ادائیگیاں کی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 6 مرتبہ خوراک کی بکنگ کی گئی کیونکہ کچھ کمپنیاں تحقیق کے وقت ناکامی کا اعتراف کرسکتی ہیں۔
علاوہ ازیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہم ویکسینز اور امیونائیزیشن کے لیے عالمی اتحاد (گاوی) کے کوویکس کا حصہ ہیں جس میں 189 ممالک ہیں اور ہم 20 فیصد آبادی کے لیے مفت ویکسین حاصل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہم 2021 کی دوسری سہ ماہی میں ہماری آبادی کے 3 فیصد کے لیے ویکسین حاصل کرلیں گے جبکہ باقی 2021 کے اختتام تک مل جائے گی، تاہم ویکسین کے کولڈ چین منیجمنٹ سے متعلق سوالات ہوں گے چونکہ یہ آزاد نہیں ہوگا کہ پورے ملک میں ویکسین فراہم کریں۔
دوسری جانب جب پولیو پروگرام اینڈ ایکسپینڈڈ پروگرام آف امیونائیزیشن کے سربراہ ڈاکٹر رانا صفدر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہہ کولڈ چین منیجمنٹ کا ایک مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک بھرمیں ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنے کولڈ چین منیجمنٹ سسٹم کا جائزہ لے رہے ہیں، اگرچہ کولڈ اسٹوریج کو منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ پر برقرار رکھنے کے لیے آسانی سے انتظام کیا جاسکتا ہے اور یہ صرف کووڈ 19 ویکسین کے لیے استعمال ہوگا کیونکہ دیگر ویکسین 2 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھی جاتی ہیں۔