اپوزیشن کی 11 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت مخالف تحریک کے سلسلے میں آج لاہور میں پاور شو کے لیے تیار ہے، آج کا جلسہ اپوزیشن کی حکومت مخالف شروع کی گئی تحریک کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ ہے جس کے بعد یہ اپوزیشن اتحاد دوسری حکمت عملی اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ساتھ ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے آج کے جلسے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کے فیصلہ کن مرحلے کا اعلان بھی متوقع ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حکومت مخالف جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے ہوا تھا جس کے بعد یہ اتحاد کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں جلسے کرچکا ہے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے آج کے جلسے کے لیے مینار پاکستان پارک کا انتخاب کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں وہاں اسٹیج سجا دیا گیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق جلسے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رضاکار ونگ انصار الاسلام کے 3 ہزار رضاکار سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے جبکہ خواتین شرکا کے لیے الگ سے گیٹ مختص کیا گیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے آج کے اس جلسے کے لیے سیاسی ماحول کو کافی گرم کیا ہوا ہے اور اس سلسلے میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے قیادت نے مختلف ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
وہی دوسری جانب اگرچہ حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم حکومت نے جلسے کے لیے کرسیاں، میز، ٹینٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر پی ڈی ایم کو جلسے مؤخر کرنے کا کہا گیا تھا تاہم اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آخری لمحات میں اتوار کے جلسے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ جلسے میں آنے والے شرکا کو روکنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اپوزیشن کو یہ موقع دینا چاہتی ہے وہ اکتوبر 2011 میں اسی مقام پر کیے گئے عمران خان کے جلسے سے مقابلہ کرے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کو جلسے کے لیے فری ہینڈ دینے پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ جنوری میں شروع ہوگا جس میں پی ڈی ایم آخری شو سے قبل ملک بھر میں 16 مزید ریلیوں کا منصوبہ رکھتی ہے، آخری شو میں پی ڈی ایم جماعتوں کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے شامل ہیں۔
لیگی رہنما کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ جنوری میں پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل کچھ پردے کے پیچھے پیش رفت ہوسکتی ہے۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مینار پاکستان پر ایک جلسہ کرنے جارہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا یہ اس مقام پر پہلا جلسہ ہے، اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بھی مینار پاکستان میں سیاسی جلسے میں یہ پہلی شرکت ہوگی۔
اس مقام پر جاکر جلسے سے ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کے 1986 کے منار پاکستان کے تاریخی جلسے کی یادیں تازہ ہونے کی اُمید ہے۔
آج کے جلسے میں کارکنان کی شرکت یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے لاہور میں سیاسی حل چل دکھائی اور مریم نواز نے 14 حلقوں میں کارنر میٹنگ بھی کیں۔
انہوں نے لوگوں سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور پی ڈی ایم کے منار پاکستان جلسے میں شریک ہوں تاکہ اس حکومت کو گھر بھیجا جاسکے، جلسے سے قبل ہفتے کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ڈان سے گفتگو میں منار پاکستان پر جلسے کی اہمیت پر زور دیا۔