اسلام آباد(پاک صحافت) ایک سرکاری سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ عالمی کورونا وائرس کے تحفظ کی خاطر پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے 2کروڑ 7لاکھ 60 ہزار افراد روزگار کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر مزید لاک ڈاؤن ہوتا تو مزید تباہ کن اثرات دیکھنے کو مل سکتے تھے۔
ذرائع کے مطابق پلاننگ کمیشن نے جمعرات کو کہا کہ ملک کی 10سال یا اس سے زائد عمر کی 35 فیصد (تقریباً 5کروڑ 57لاکھ 40 ہزار) آبادی کووڈ-19 کے آغاز سے قبل کام کر رہی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے یہ گھٹ کر 22 فیصد (تقریباً 3کروڑ 50 لاکھ 40 ہزار) رہ گئے، پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے ذریعہ کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 2 کروڑ 7 لاکھ 60 ہزار آبادی متاثر ہوئی۔
مزید پڑھیں: نئے پاکستان کے بجائے نئے قبرستان بنائے جا رہے ہیں:سراج الحق
وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیرصدارت ایک جائزہ اجلاس میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جولائی کے بعد بحالی کا عمل شروع ہوا اور 33 فیصد عوام نے اپریل جولائی 2020 کے بعد کام کرنے کی اطلاع دی، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5کروڑ 25 لاکھ 60 ہزار افراد نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ایک کروڑ 70 لاکھ 70 ہزار گھرانوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے، سروے کے شواہد نے بتایا ہے کہ اگر سخت لاک ڈاؤن کا عمل جاری رہتا تو کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات دیکھنے کو مل سکتے تھے۔
اجلاس میں کووڈ۔19 کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کئے گئے سروے کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا، سروے میں آمدنی، ترسیلات زر، غذائی عدم تحفظ اور صحت کے سلسلے میں گھر اور اثاثوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور اثاثوں سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔
واضح رہے کہ ضلعی انتظامیہ منڈیوں کی مؤثر نگرانی کر کے قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کی جاری کردہ قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔