نیتن یاہو

نیتن یاہو اور بین گوئیر کے درمیان اختلافات نے اسرائیل کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کر دیے ہیں

پاک صحافت اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارینوت نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو ہوم لینڈ سیکورٹی کے وزیر اتمار بن گوئیر کو اپنی اعلیٰ ترین سیکورٹی میٹنگوں میں مدعو نہیں کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی صہیونی جماعتوں کے ساتھ نیتن یاہو کی نئی کابینہ کی تشکیل کو دس ماہ گزر چکے ہیں۔ نیتن یاہو نے انتہائی دائیں بازو کے صیہونی رہنما بین گوئیر کی قیادت میں دائیں بازو کی صہیونی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی لیکن اس نئی حکومت کو شروع سے ہی مسائل اور اختلافات کا سامنا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکام اور تجزیہ کار اس طرح کے اتحاد کے بارے میں پہلے ہی خبردار کر چکے تھے۔ اس اتحاد نے خود اسرائیل کے لیے کئی سنگین چیلنجز پیدا کیے ہیں۔

پہلا چیلنج غیر قانونی طور پر قابض علاقوں میں سیاسی خلیج کا بے مثال وسیع ہونا ہے۔ لبرل دائیں بازو کا خیال ہے کہ بین گوئیر جیسے بنیاد پرستوں کی وجہ سے اسرائیل کے نظامِ اقتدار میں دائیں بازو کی پوزیشن خاصی کمزور ہوئی ہے، کیونکہ بین گوئر نے اپنی غیر سیاسی اور بنیاد پرست شخصیت کی وجہ سے ایک بار پھر نیتن یاہو کی کابینہ کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ نیتن یاہو کی کابینہ اب انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں میں سب سے کم مقبول ہے۔

دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اقتدار میں بن گوئیر جیسے لوگوں کی وجہ سے اسرائیلی شہریوں اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اور یہ دراڑ اپنے عروج پر ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ 10 مہینوں کے دوران بے مثال بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھے ہیں، جس سے حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ صہیونی فوج اور بالخصوص فضائیہ میں بھی اس حکومت کے خلاف ناراضگی کھل کر سامنے آئی ہے اور کئی فوجی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔

تیسرا چیلنج یہ ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے صہیونیوں کی وجہ سے فلسطینیوں اور صیہونی فوجیوں کے درمیان تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ تنازعات میں اضافے کی وجہ سے اب ان فلسطینیوں میں بھی مزاحمت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے جو نام نہاد سیاسی حل پر یقین رکھتے تھے۔

چوتھا سنگین چیلنج یہ ہے کہ صہیونی کابینہ کے اندر ہی اختلافات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بین گوئیر اور وزیر دفاع یوف گیلنٹ کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اسرائیل کے ٹی وی چینل 12 نے اس حوالے سے ایک انکشاف کیا ہے کہ ستمبر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں بین گوئیر نے اعلیٰ فوجی افسران پر کڑی تنقید کی اور انہیں شدید نشانہ بنایا۔ اس کے باوجود، گیلنٹ نے فوجی کمانڈروں سے کہا ہے کہ وہ بین گوئیر کے حملوں کا جواب نہ دیں۔

بین گوئیر کی ان حرکتوں کی وجہ سے اب نیتن یاہو بھی ان سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے انہیں اپنی اعلیٰ خفیہ ملاقاتوں میں مدعو کرنا چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ وہ کابینہ کے وزیر ہیں۔ آحارینوت لکھتے ہیں کہ نیتن یاہو کو خدشہ ہے کہ بین گوئیر انتہائی خفیہ معلومات کو عام کر سکتے ہیں، جس کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جس کی پیشین گوئی اس حکومت کے قیام سے پہلے ہی سیاسی پنڈتوں نے کی تھی اور ایک بار پھر اسرائیل کو سیاسی تعطل اور نئے انتخابات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

مصری تجزیہ کار: عرب ممالک کی خاموشی شرمناک ہے/دنیا بھر کے عوامی ضمیر کو جگانا

پاک صحافت مصر کے تجزیہ کاروں نے امریکہ میں طلباء کی صیہونیت مخالف تحریک کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے