بھارت کی خطرناک ہندودہشت گرد تنظیم بجرنگ دل نے کشمیری روایتی لباس پھیرن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا

بھارت کی خطرناک ہندودہشت گرد تنظیم بجرنگ دل نے کشمیری روایتی لباس پھیرن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا

سرینگر (پاک صحافت)  بھارت کی ایک خطرناک دہشت گرد ہندو تنظیم بجرنگ دل نے حال ہی میں کشمیر کے مخصوص روایتی لباس پھیرن پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جماعت کا دعویٰ ہے کہ پھیرن ایک بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے جس میں عسکریت پسند بم اور گرینیڈ وغیرہ چھپا کر لے جاتے ہیں۔

اس مطالبے نے خطے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں سکیورٹی اہلکار ان افراد کی گہری تلاشی لے رہے ہیں جو پھیرن پہنے ہوئے ہیں۔

پھیرن اوپر سے نیچے تک پہننے والا لباس ہے جسے مرد و خواتین دونوں زیب تن کرتے ہیں، یہ جموں اور کشمیر کا ایک روایتی لباس ہے جو جموں و کشمیر کے کلچر سے جڑا ہوا ہے، گرمیوں میں یہ کاٹن کا ہوتا ہے جبکہ سردیوں کے لیے اونی کپڑے کا بنایا جاتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت میں کسی اقلیت کا لباس نشانے پر ہو۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی بے دریغ جملے کستے ہیں۔ مثال کے طور پر 2019 میں جب شہری ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہو رہے تھے تو جھار کھنڈ میں وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ان قوانین کے خلاف نہ صرف مسلمان سراپا احتجاج تھے بلکہ ہندو اور دوسرے لوگ بھی مزاحمت کا حصہ تھے، چونکہ اس کا ہدف بظاہر مسلمان تھے اس لیے مسلمان زیادہ تعداد میں سڑکوں پر تھے، وزیرِ اعظم کی طرف سے کھلا کھلم ایک اقلیت کے خلاف اکثریت کو اکسانا نہایت ہی حیران کن تھا۔

پھیرن جموں و کشمیر کی ثقافت کا اہم ترین حصہ ہے۔ وادی کشمیر سمیت چناب اور پیر پنجال ویلیز میں بلا مذہب اور رنگ و نسل اس کا استعمال ہوتا ہے، بوڑھے، بچے، نوجوان و عورتیں خوشی سے اسے زیب تن کرتے ہیں۔

سردیوں میں اس کا استعمال زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ گرم اور آرام دہ لباس ہے، برف باری و کڑاکے کی سردیوں میں پھیرن کے نیچے کانگڑی استعمال کی جاتی ہے اور کشمیر کی کڑاکے کی سردی میں یہاں کے باسیوں کو گرم رکھتی ہے۔

یہاں تک کہ دفتروں میں بھی پھیرن پہنا جاتا ہے، اس سے پہلے ستمبر 2018 میں زونل ایجوکیشنل آفیسر نے دفتروں میں پھیرن کے استعمال پر پابندی کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کو بعد ازاں جموں و کشمیر کے عوام کی طرف سے تنقید کے بعد واپس کرنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

نینسی پلوسی

نینسی پیلوسی: نیتن یاہو کو مستعفی ہو جانا چاہیے

پاک صحافت امریکی ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر نے کہا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے