کیا امریکہ میں نئی حکومت آنے سے پاکستان کے حالات میں کوئی تبدیلی آئے گی؟

کیا امریکہ میں نئی حکومت آنے سے پاکستان کے حالات میں کوئی تبدیلی آئے گی؟

(پاک صحافت) بائیڈن انتظامیہ امریکہ میں ایک ایسے وقت میں اقتدار میں آئی ہے جب پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اپنا ڈھائی سال کا سفر طے کرکے تیسرے پارلیمانی سال کے مکمل ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔

حکومت کے چوتھے اور پانچویں سال میں بیوروکریسی پر گرفت ویسے ہی کمزور ہوجاتی ہے، اور پانچویں پارلیمانی سال میں حکومت اگلے عام انتخابات کی تیاری میں لگ جاتی ہے، اس طرح پلک جھپکتے ہی یہ سال گزر جاتا ہے۔

یوں عمران حکومت اور بائیڈن انتظامیہ کے مابین باہمی سفارتی تعلقات کے لیے عملاً ایک سال کا ہی وقت ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی نظر پاکستان میں مستقبل کے سیاسی نقشے پر رہے گی۔

عمران حکومت کا اگر تجزیہ کیا جائے اور اگر یہ طے بھی کرلیا جائے کہ حکومت اپنی 5سالہ مدت مکمل کرے گی اور اسے پی ڈی ایم سمیت کسی سیاسی چیلنج اور مزاحمت کا کوئی حقیقی خطرہ نہیں، تب سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ حکومت اپنے طے شدہ سیاسی اہداف حاصل کرپائے گی؟ خارجہ امور پر اس کی کتنی گرفت ہوگی؟ جواب یہی ہے کہ حکومت کے گزرے ڈھائی سال ہی اس کے آنے والے ڈھائی سال کی اصل تصویر ہوں گے، مگر ماضی کی کارکردگی بتارہی ہے کہ یہ تصویر روشن نہیں بلکہ دھندلی ہے۔

ملک کی شرح نمو منفی ہوچکی ہے، ڈھائی سال بعد انہی معاشی حقائق کے ساتھ کتنی بہتری لائی جاسکے گی؟ ملکی معیشت کی رگوں میں کتنی شاہراہوں کی تعمیر اور توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے کتنے نئے کارخانوں کا خون شامل کیا جاسکے گا، اور زرعی معیشت میں یہ حکومت کتنا انقلاب لاسکے گی۔ جب کہ بے روزگار لوگوں کو نوکریاں دینے اور گھروں کی تعمیر کے وعدے ابھی تک سراب ہیں، غریب خطِ غربت سے اتنے نیچے گر چکے ہیں کہ اب نظر بھی نہیں آرہے۔

تحریک انصاف کا نعرہ تھا کہ وہ کرپشن فری پاکستان بنائے گی، لوگ باہر سے یہاں آکر نوکریاں کریں گے، بیرونِ ملک پڑی ہوئی اربوں ڈالر کی کالی دولت کو واپس لاکر ملک کو امیر کردے گی، بیرونی قرض منہ پر مارے گی،حکومت کی آدھی میعاد ختم ہوچکی ہے، اب تک کی کارکردگی دیکھ کرکہا جا سکتا ہے کہ حکومت نہ اپنے اہداف اور نہ ہی اپنے وعدے پورے کرسکے گی، اور جب پانچ سال پورے ہوں گے تو اس کے صفِ اوّل کے راہنما اور وزراء تک اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

عمران حکومت کے پہلے ڈھائی سال کرپشن کے خلاف زوردار مہم میں صرف ہوئے، بڑے بڑے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو جیلوں میں ڈالا گیا، اِس ساری مہم کا نہ کوئی فائدہ ہوا، نہ قومی سطح پر کرپشن کا خاتمہ ہوسکا۔ مہم تو زوردار رہی مگر اِس کا معاشرے پر اثر بالکل نہیں پڑا، تھانے، کچہری اور پٹواری کا استبداد اور کرپشن اب بھی جاری و ساری ہے۔

لاہور، اسلام آباد سمیت ملک کے ہر بڑے شہر میں قبضہ مافیا دندنا رہا ہے، اسے پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، تعمیراتی شعبے کی لابی صارفین کے نام پر محض اپنے لیے ٹیکسوں میں اربوں روپے کی چھوٹ کے مالی فائدے حاصل کرچکی ہے، ان حقائق کے ساتھ غیر مقبول ہوتی ہوئی ایک ایسی حکومت جس کا کوئی معاشی وژن نہیں، اور جو فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن میں اپنے خلاف سنگین نتائج کے حامل مقدمے میں بطور ملزم کٹہرے میں کھڑی ہے اور تیزی سے عوامی اعتماد کھورہی ہے، کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کیا بات کرے گی؟

رواں ہفتے امریکی نومنتخب صدر جوبائیڈن باقاعدہ اپنا منصب سنبھال رہے ہیں، اور اس کے بعد وہ اپنی ترجیحات سامنے لائیں گے، ہمیں ان کی مشرق وسطیٰ، کشمیر سمیت جنوب ایشیا اور عمومی طور پر دنیا میں امن کے قیام کے لیے ترجیحات کا انتظار ہے۔

پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ یہ رہی کہ یہ بے جوڑ شادی کی مانند چل رہے ہں، یہ بندھن نسل در نسل سے جاری ہے، امریکہ کی ہمارے لیے یقین دہانیوں کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے، اس کے گرین کارڈ کا اپنا ایک الگ چسکا ہے جس کے لیے ہمارے ریٹائرڈ بیوروکریٹس، فوجی افسران اور سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں جابسی ہے، امریکی ڈالر ہماری معیشت کو جکڑے ہوئے ہے۔ ملک میں مہنگائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس وقت دنیا کورونا کے سامنے بے بسی کا شکار ہوچکی ہے۔

نومنتخب امریکی صدر کی اوّلین ترجیح بھی صحتِ عامہ ہوگی، مگر حلف برداری سے پہلے وہاں کے سیاسی نظام کی صحت سے متعلق بہت سے سوالات اٹھے ہوئے ہیں۔ امریکیوں کی یہی شامتِ اعمال انہیں دنیا میں کمزور کردے گی۔

یہ خلفشار اب امریکہ کو چمٹ گیا ہے، اس کا وائرس اپنی شکلیں بدل بدل کر حملہ آور ہوتا رہے گا، مستقبل میں امریکی معاشرے میں ایسے سیاسی جھگڑے اب کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ نومنتخب صدر جوبائیڈن امریکی سیاسی تہذیب کو کس قدر بچا سکیں گے؟ یہ سوال چار سال بعد ضرور سامنے آئے گا۔ اس وقت وہاں صحت کا نظام اور ملکی معیشت بدحال ہے، امریکہ پوری طرح کالے اور گورے میں تقسیم ہوچکا ہے۔

پاکستانی معاشرہ بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر تقسیم رہا، مگر فیصلہ ساز قوتیں معاشرے کی سوچ پر حاوی رہی ہیں، لہٰذا پاک امریکہ نشیب و فراز کے ساتھ پاک امریکہ تعلقات چل رہے ہیں۔ سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کے نتائج کے بعد وہاں جس طرح حالات پلٹا کھا رہے ہیں، ہمارے ملک کی پارلیمنٹ میں امور خارجہ سے متعلق کوئی سوال اٹھانے کا موقع میسر نہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس چار ماہ سے نہیں ہوا، سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں یہ معاملہ ابھی تک زیر بحث نہیں لایا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے اس صورتِ حال پر ہماری وزارتِ خارجہ میں تجزیہ کیا گیا ہے؟ جب صدارتی انتخاب کے نتائج کے ردعمل میں حالات اگر خرابی کی جانب بڑھ گئے تو وہاں خانہ جنگی کا امکان ہے، اس صورت میں حکومتِ پاکستان وہاں مقیم پاکستانیوں کی حفاظت کے لیے کیا سوچ رکھتی ہے اور کس طرح کے انتظامات کیے جائیں گے؟ ان سوالوں کا جواب پارلیمنٹ میں دیا جانا ضروری ہے۔

پاک امریکہ تعلقات کے تجزیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا کی سپر پاورکے ساتھ 73سال سے ہمارے تعلقات ہیں تو ہم معاشی لحاظ سے غربت کی لکیر سے نیچے کیوں ہیں؟ بے روزگاری اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ باہمی اعتماد کا عالم یہ ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں باوقار برابری نہیں مل سکی، مگر ہم سات عشروں سے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

جوبائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے ہیں اور دنیا ایک بار پھرامریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا انتظار کررہی ہے، جو ٹرمپ کے دور میں بھٹک چکی تھی۔ اب وہاں چین کے ساتھ تعلقات، عالمگیریت اور اس عالمی اشرافیہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف مزاحمت سامنے آرہی ہے۔

امریکہ کو اب خارجہ پالیسی کا چہرہ درست کرنا ہوگا۔ ٹرمپ اگرچہ انتخاب ہار گئے ہیں لیکن ان کے خیالات زندہ رہیں گے۔ بائیڈن کو ایک شورش پسند ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے ساتھ کورونا زدہ معیشت کی بہتری کے لیے بھی کام کرنا ہوگا اور داخلی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔

امریکیوں کے روزگار اور کاروبار کا تحفظ کرکے ملک کو استحکام دینا ہوگا۔ چین کے ساتھ عسکری، معاشی، تکنیکی اور نظریاتی مقابلے کی جغرافیائی سیاست کا بھی امکان کم ہے۔ بائیڈن کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ چین کو نیچا دکھانے کے بجائے ٹیکنالوجی میں امریکہ کو آگے لے جائیں۔ بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت توانائی کے لیے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

بائیڈن نے بھی ایک کروڑ اچھی تنخواہ والی اوسط درجے کی یونین نوکریوں کا وعدہ کیا ہے۔ خارجہ پالیسی میں مغربی یورپ اور جاپان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، بائیڈن انتظامیہ اسرائیل، بھارت اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے گی، روس کے ساتھ رویہ مختلف ہوسکتا ہے، اس لیے کہ یہ امریکہ کا ایک داخلی مسئلہ بھی ہے، چونکہ بائیڈن کو کانگریس میں بہت زیادہ حمایت حاصل نہیں ہوگی، اس لیے مقامی سیاست ان کے دیگر ایجنڈوں میں رکاوٹ بنے گی، اسی وجہ سے شاید ایران جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے میں بھی کوئی جلدی نہ کی جائے۔

پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے لیے بائیڈن انتظامیہ اوباما انتظامیہ سے مختلف ہوگی، پاک امریکہ تعلقات کا انحصار ماضی پر نہیں ہوگا، کیونکہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے، افغانستان کی جنگ اب تاریخ بنتی جارہی ہے، افغان حکومت اور طالبان امریکہ کے لیے اہم رہیں گے۔ اگر اس تنازعے کا کوئی حل نہ نکلا تو پاک افغان سرحدی علاقے متاثر ہوں گے۔

یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو پاکستان کے لیے بہت بڑا امتحان ہوگا، امریکہ نہیں چاہے گا کہ انڈو پیسیفک حکمتِ عملی میں چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہدف بنایا جائے، ایسا ہوا تو پاکستان چین کے مزید قریب ہوجائے گا، لیکن اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو اسے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر مثبت ردِعمل دینا ہوگا۔

ماضی کی طرح دوبارہ امداد ملنے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ وہ امداد سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ملا کرتی تھی، اور اب یہ صورت حال موجود نہیں ہے، لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں جس میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تو نہ ہو لیکن اس سے الگ بھی نہ ہو۔

پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ ملک کی اقتصادی تباہی اور زوال کا سبب بنی ہوئی ہے، مگر یہی طبقہ امریکیوں کی ناک کا بال ہے، لہٰذا امریکہ نواز اشرافیہ کے ہاتھوں قومی اداروں کی تباہی کا سفر جاری رہے گا۔

جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو شریک ہوں گے، انہیں تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو اگرچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں، مگر وہ جس پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک این جی او ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے یہی جواب الیکشن کمیشن میں بھی داخل کرایا گیا تھا، دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں وہ اپنا اور پاکستان کا مقدمہ کس طرح پیش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے