اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اور صہیونی حکام میں شدید کھلبلی

اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اور صہیونی حکام میں شدید کھلبلی

(پاک صحافت) ایک طرف جہاں عالمی عدالت انصاف کی طرف سے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کی تحقیقات کے اعلان پر فلسطینی قوتوں‌ کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف صہیونی حکام میں شدید کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

فلسطین کی سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، فلسطینی اتھارٹی اور اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے عالمی فوج داری عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا عالمی فوج داری عدالت صہیونی جنگی مجرموں کو کٹہرے میں لائے گی۔

فلسطینی وزیر برائے امور خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے متعلقہ ادارے فوری طور پر عالمی عدالت کے ساتھ رابطے میں آگئے ہیں تاکہ فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم کی جلد از جلد تحقیقات شروع کی جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ اسرائیلی جنگی مجرموں کے جرائم کی تحقیقات کی راہ ہموار کرے گا۔

فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے الحق گروپ کے ڈائریکٹر جنرل شعوان جبارین نے فلسطینی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اسے موثر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ اس حوالےسے پورے کام کو منظم کرنا ہوگا۔ عالمی فوج داری عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل کوحقائق تک پہنچنے کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔ عالمی عدالت کا اگلا قدم براہ راست تحقیق کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ عالمی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی)  نے جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر بھی دائرہ اختیار حاصل ہے جس کے بعد عالمی ٹریبونل کے لیے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی سی سی پراسیکیوٹر فتوؤ بینسودا نے عالمی عدالت سے قانونی رائے طلب کی تھی کہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں یا نہیں کیوں کہ انہوں نے دسمبر 2019 میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کا آغاز کرنا چاہتی ہیں۔

دوسری جانب فلسطینیوں نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا ہے۔

آئی سی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ججز کی اکثریت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عدالت کو 1967 کے بعد سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں یعنی غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس سمیت فلسطین کی صورت حال پر فیصلہ کرنے دائرہ اختیار حاصل ہے۔

فلسطین عالمی عدالت کا رکن ہے جس نے 2015 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اسرائیل اس کا ممبر نہیں ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس کا فیصلہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے بنیادی قانون کے تحت  فلسطین کی پوزیشن کو بطور ریاستی فریق کی حیثیت سے ہی دیکھتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ عدالت بین الاقوامی قانون کے تحت نہ تو کسی سرحدی تنازع کا فیصلہ کر رہی ہے اور نہ ہی مستقبل کی سرحدوں کے بارے میں اس کا کوئی تعلق ہے۔

آئی سی سی کی پراسیکیوٹر بینسودا نے پانچ سال کی ابتدائی تحقیقات کے بعد دسمبر میں مبینہ جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہیں اور ان کا آئندہ کا اقدام آزاد اور غیر جانبدارانہ مینڈیٹ کے مطابق ہو گا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی پراسیکیوٹر اور آئی سی سی کے ایک اور سینیئر عہدیدار پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

بینسودا نے اس سے قبل امریکی فوجی اہلکاروں کی جانب سے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ، جو آئی سی سی کا ممبر نہیں ہے، نے ان پر امریکہ داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے عالمی عدالت کے اس فیصلے پر سختی تنقید کی ہے، نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ٹریبونل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ عدالتی ادارہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ادارہ ہے، اس فیصلے نے دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کے جمہوری حق کو پامال کیا ہے۔

ایک اور اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ یہ فیصلہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا کیونکہ خطے میں ’تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ یہ  فیصلہ نہ عدالت کے لیے اچھا ہے، نہ اسرائیل کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی خطے کے لیے اچھا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شعوان نے کہا کہ عالمی عدالت کو صہیونی ریاست کے سیاسی اور فوجی عہدیداروں کے جرائم کا تعین کرکے ان کی خاص پیمانے، طریقہ کار، اسلوب،منہج اور خطوط پر تحقیق کرنا ہوگی۔ تحقیق کے دوران جنگی مجرموں کی گرفتاری کے لیے بھی احکامات صادر کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اسرائیل عالمی عدالت کی ٹیم کو جرائم کی تحقیقات کے لیے فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ تاہم عالمی عدالت کواپنے مبصرین فلسطینی علاقوں میں بھیجنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جرائم پرمبنی پالیسی واضح ہے۔

فلسطینی سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کو بہت سے کیسز کی تحقیقات کرنا ہوں گی۔ ان میں فلسطین میں غیر قانونی یہودی آباد کاری، فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام، جبری ھجرت، مکانات اور املاک کی مسماری جیسے کیسز شامل ہیں۔ ان کیسز میں عالمی عدالت کو وافر مقدار میں معلومات مل جائیں گی۔

فلسطینی تجزیہ نگار شعوان کا کہنا ہے کہ عالمی فوج داری عدالت کے فیصلے کے بعد فلسطینیوں‌ پر بھی کچھ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں، فلسطینیوں کو عالمی عدالت کے ساتھ سابقہ تجربے کی بنیاد پر مستقل تعاون کرنا اور عدالت کو معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے عالمی عدالت سے بھرپور تعاون کیا گیا۔ ہم اس وقت پیچیدہ مرحلے میں ہیں۔ یہ ابتدائی چھان بین کا مرحلہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

میزائل

ایران کے میزائل ردعمل نے مشرق وسطیٰ کو کیسے بدلا؟

پاک صحافت صیہونی حکومت کو ایران کے ڈرون میزائل جواب کے بعد ایسا لگتا ہے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے