مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہا، بیٹے کی لاش مانگنے پر باپ کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہا، بیٹے کی لاش مانگنے پر باپ کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا

سرینگر (پاک صحافت) مقبوضہ کشمیر میں اگرچہ پچھلے ستر سالوں سے ظلم و ستم کا بازار گرم ہے لیکن انتہاپسند مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق ان تازہ ترین مظالم کی ایک داستان اس وقت منظرعام پر آئی جب بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل ہوئے نوجوان بیٹے کی لاش کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے شہری کے خلاف غیرقانونی جلوسوں کے انعقاد اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد وانی اور ان کے دو بھائیوں سمیت چھ افراد پر غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف گزشتہ ہفتے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

قابض بھارتی افواج نے مشتاق کے 16سالہ نوجوان اطہر مشتاق اور دیگر دو نوجوانوں کو 30دسمبر کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا جہاں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سرینگر کے نواح میں ہونے والے پولیس مقابلے میں ان نوجوانوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا اور انہیں کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف خطرناک دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیا۔

حکام نے ان نوجوانوں کو ان کے آبائی گاؤں سے 115 کلومیٹر دور قبرستان میں دفنا دیا جہاں اب تک اپریل 2020 کو شروع کی گئی پالیسی کے تحت بھارتی حکام 150 سے زائد نوجوانوں کو کشمیری شدت پسند قرار دے کر بے نام قبروں میں دفن کر چکے ہیں اور ان نوجوانوں کے اہل خانہ کو تدفین میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

ان نوجوانوں کے اہل خانہ مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں اور اپنے بچوں کی لاشیں حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کیونکہ وہ زور دیتے رہے ہیں کہ یہ شدت پسند نہیں بلکہ انہیں جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا۔

قتل اور تدفین پر کشمیر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور سوشل میڈیا پر مشتاق احمد کی ویڈیوز زیر گردش ہیں جس میں وہ قابض بھارتی فورسز سے ان کے بیٹے کی لاش حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

گزشتہ ماہ مشتاق احمد نے اپنے گاؤں میں بیٹے کی قبر کھود کر حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی لاش کو نکال کر یہاں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن وہ قبر اب بھی خالی ہے۔

دو پولیس اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملزم پر غیرقانونی طور پر مظاہروں کے انعقاد، ملک دشمن عناصر کی معاونت اور ریاست کے خلاف ناامیدی کے پرچار کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں انسداد دہشت گردی قانون میں ترمیم کی تھی جس کے تحت حکومت کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے، پولیس ثبوت پیش کیے بغیر ملزم کو 6ماہ تک حراست میں رکھ سکتی ہے اور ملزم کو اس کے تیجے میں 7سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کو سفاکانہ اور ظالمانہ قرار دیا تھا۔

مشتاق احمد نے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس مجھے خاموش کرنا چاہتی ہے لیکن میں خاموش نہیں رہوں گا اور انصاف اور اپنے بیٹے کی لاش کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔

کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے بھارت قابض افواج کے ذریعے تحریک کو دبانے کی دہائیوں سے کوشش کررہا ہے اور 1989 میں بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں ہزاروں نوجوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔

اگست 2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیا تھا اور کرفیو نافذ کرتے ہوئے مواصلات کے نظام پر پابندی عائد کردی تھی اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نئے قوانین متعارف کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

امریکہ میں طلبہ کے احتجاج کا تسلسل؛ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کی گریجویشن تقریب منسوخ کر دی گئی

پاک صحافت یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا نے غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے پھیلتے ہی احتجاج …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے