سینیٹ انتخابات، عدالتی فیصلہ، سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں

سینیٹ انتخابات، عدالتی فیصلہ، سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں

(پاک صحافت) سینیٹ کے انتخابات کا پہلا مرحلہ پیر کو اس وقت مکمل ہو گیا جب 48 ارکان کی میعاد پوری ہونے سے خالی ہونے والی نشستوں کیلئے 170 امیدواروں نے کاغذات جمع کرا دیے تاہم یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے یا حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اوپن بیلٹ کا طریقہ استعمال کیا جائے گا۔

اوپن بیلٹ کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے، حکومت نے اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا تھا جو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کے سبب زیر بحث نہیں آسکا، متبادل حل کے طور پر صدارتی آر ڈی نینس جاری کیا گیا جو سپریم کورٹ کی رائے کے تابع ہے۔

حکومت کی جانب سے اس معاملے میں عدالتِ عظمیٰ کی قانونی و آئینی رائے حاصل کرنے کے لئے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس کی 5 رکنی لارجر بینچ نے پیر کو بھی سماعت جاری رکھی۔

عدالت نے اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کو طلب کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں بدعنوانی روکنے کے لئے پولنگ اسکیم مانگ لی ہے۔

پیر کو سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کوئی بھی قانون کم نہیں کرسکتا، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سینیٹ انتخابات کے لئے رائے دہی خفیہ ہو لیکن شکایت آنے پر اس کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔

چیف الیکشن کمشنر سے پوچھتے ہیں کہ شفاف انتخابات کے لئے انہوں نے کیا اقدامات کئے ہیں، جسٹس اعجاز الحسن کے ریمارکس تھے کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، وہ انتخابی عمل سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے، خفیہ ووٹنگ کا اطلاق صرف ووٹ کی حد تک ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن بتائے کہ انتخابی عمل میں شفافیت کیسے لائی جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عام انتخابات والے قواعد کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔

عام انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوتے ہیں لیکن کاؤنٹر فائل بھی ہوتی ہے، تنازعے کی صورت میں اس سے مدد لی جا سکتی ہے، ریفرنس کی سماعت ابھی جاری ہے اور توقع ہے کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ 3 مارچ یعنی پولنگ سے کافی پہلے سنا سکتا ہے۔

ادھر لاہور ہائی کورٹ نے سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے خلاف ایک درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی، اس سے الیکشن کمیشن کے اختیارات واضح ہوتے ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات میں سیکرٹ یا اوپن بیلٹ کا مسئلہ تحریک انصاف کی حکومت کی اس خواہش کا نتیجہ ہے کہ انتخابات سیکرٹ کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں جبکہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی پارٹیاں اوپن بیلٹ کی مخالفت کررہی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹ بیلٹ کی صورت میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے کئی ارکان حکومتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے اس لئے حکومت ووٹنگ اوپن کرانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جبکہ حکومت کو یقین ہے کہ خفیہ ووٹنگ ہوئی تو بھی جیت اسی کی ہوگی۔

نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن حکومتی پارٹی کی صفوں میں اس وقت جو کھلبلی نظر آرہی ہے وہ اپوزیشن کی توقعات کو تقویت پہنچا رہی ہے، اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں ناراض ارکان کو منانے کے لئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ناموں پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جیت کسی کی بھی ہو، سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور اس کے لئے تمام ضروری طریقے برؤئے کار لائے جانے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں

اجتماعی قبر

غزہ کی اجتماعی قبروں میں صہیونی جرائم کی نئی جہتوں کو بے نقاب کرنا

پاک صحافت غزہ کی پٹی میں حکومتی ذرائع نے صہیونی افواج کی پسپائی کے بعد …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے