ملک میں بڑہتی مہنگائی اور حکومت کی ذمہ داریاں

ملک میں بڑہتی مہنگائی اور حکومت کی ذمہ داریاں

(پاک صحافت) گزشتہ تین سال سے تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہ ہونے سے وفاقی سرکاری ملازمین کو 25 فیصد ایڈہاک ریلیف حاصل کرنے میں جو کامیابی ملی ہے اور آمدہ بجٹ میں اس کا دائرہ وسیع کرنے کا جو حکومتی اعلان ہے اس سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات پیدا ہونے کی اطلاعات ہیں، اس سے توانائی کے شعبے میں قیمتیں ہوشربا حد تک بڑھانے کے تقاضے کو تقویت ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

دوسری طرف حکومت نے 21جنوری کو بجلی کی قیمتوں میں کئے جانے والے 1.95روپے فی یونٹ اضافے کو جمعہ کے روز بڑھا کر تقریباً چار روپے کر دیا ہے جو بلوں میں وصول کئے جانے والے کم و بیش 9مدوں میں سرچار میں مزید اضافے کا بھی باعث بنے گا اس سے امکان غالب ہے کہ بجلی کے فی یونٹ نرخ بڑھ کر اوسطاً 25 روپے کی سطح تک پہنچ جائیں گے جس کی مثال ملکی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔

اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں یکم جنوری سے یکم فروری تک تین بار مجموعی طور پر آٹھ روپے فی لیٹر اضافہ کیا جا چکا ہے، اس ساری صورتحال سے صارفین خصوصاً غریب طبقے پر مہنگائی در مہنگائی کے جو اثرات رونما ہوں گے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔

شماریات کے قومی ادارے کے حساس اشاریوں کے مطابق رواں ہفتے مجموعی طور پر گزشتہ دنوں کے مقابلے میں جن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہےان میں چینی، آٹا، خوردنی تیل،

گھی، سرسوں کا تیل سرفہرست ہیں جبکہ رمضان المبارک کے موقع پر ہر سال ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان غالب چلا آ رہا ہے اگر یہ صورتحال جاری رہی تو آنے والے دنوں میں نہ صرف 25فیصد متذکرہ ایڈہاک ریلیف بلکہ آئندہ بجٹ میں ہونے والا ممکنہ اضافہ بھی بے اثر ہو کر رہ جائے گا۔

آج پاکستانی اس دکھ میں مبتلا ہیں کہ اخراجات مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور آمدنی میں اضافہ ہونا تو دور کی بات، اس میں کمی ہو رہی ہے اور بے روز گاری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے؟ کیا لنگر خانے اس مرض کا حل ہیں؟

کیا حکمران دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں گے کہ یہ جو عوام ہیں، ان کا کیا قصور ہے، یہ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں کہ آج خود دار لوگ ایک وقت کا کھانا ترک کر رہے ہیں، تو کل وہ باقی خوراک پوری نہ ہونے پر فاقے کریں گے؟

یہ کوئی فریاد نہیں، یہ اپیل بھی نہیں، یہ حقیقت اور ایک آئینہ ہے، اب غور فرمائیں کہ دس ہزار روپے ماہوار والا ہیلپر، دیہاڑی دار مزدور(جسے ہر روز مزدوری نہیں ملتی) اور درجہ چہارم کے ملازم کے ساتھ فکس انکم گروپ والے کیا کریں گے؟

ہم اس سوچ اور فکر میں گم اور غلطاں ہیں کہ ملک میں مہنگائی نے جو رخ اختیار کیا، اور جس انداز سے بجلی، گیس، پانی کے نرخ اوپر جا رہے اور اشیاء ضرورت اور خوردنی مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں؟ وہ تو ہم جیسے سفید پوشوں کو بھی کئی ضروریات ترک کرنے پر مجبور کر چکیں اور اب نوبت کھانا کم کرنے تک آ ہی پہنچی ہے۔

حکومت کو اس سارے معاملے کا ادراک کرتے ہوئے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے اجتناب کرنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے