کشمیر

مسئلہ کشمیر اور حکومتی پالیسی

اسلام آباد (پاک صحافت) پی ٹی آئی اور عمران خان کے برسرقتدار آنے کے بعد کشمیریوں کے حق میں حکومتی سطح پر کچھ نعرے تو لگائے گئے لیکن عملی طور پر مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس کی وجہ سے کشمیر قابض بھارتی فورسز کی بربریت کا شکار ہیں۔ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے جبکہ تمام کشمیری اب اسی جیل میں قید ہیں۔ بے گناہ جوانوں کو قتل کرنا اور خواتین کی عصمت دری روز کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں اور پی ٹی آئی حکومت نے بھارت مظالم پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کے اندر آزاد جموں و کشمیر میں جو انتخابات ہوئے ہیں، اُنہوں نے پاکستان کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں کوٹلی کے مقام پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کر دیا کہ جب کشمیری پاکستان سے الحاق کر لیں گے، تو ہم اُن سے پوچھیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ یا آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ اِس اعلان نے ذہنوں میں زبردست ارتعاش پیدا کیا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کے بارے میں تیسرے آپشن کی گنجائش ہے۔ دوسرا یہ کہ کیا پاکستان کا آئین تیسرے آپشن کی اجازت دیتا ہے۔ تیسرا یہ کہ خودمختار کشمیر کے قیام سے ہمارے خطے میں کیا کیا اسٹرٹیجک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین اِس امر پر متفق ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں واضح طور پر صرف دو آپشن پیش کئے گئے ہیں۔ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔ پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے نے آئین کے آرٹیکل 257 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارا آئین کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی اجازت دیتا ہے، مگر آئین کے الفاظ اِس تعبیر و تشریح سے مطابقت نہیں رکھتے، جو یہ ہیں ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا ہے، تب پاکستان اور رِیاست کے مابین رشتے کی نوعیت ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے ہو گی۔‘‘ پاکستان کے قابلِ قدر سفارت کار جناب جاوید حفیظ نے اِس رشتے کی کئی صورتیں بیان کی ہیں۔ ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور سندھ کی طرح کشمیر بھی پاکستان کا ایک صوبہ بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فارن پالیسی، کرنسی، دفاع اور مواصلات کے سوا باقی تمام اختیارات کشمیری حکومت کے پاس ہوں، یعنی پاکستان کے اندر کشمیر کو مکمل خودمختاری حاصل ہو۔ یوں ہمارے دستور کا آرٹیکل 257 تیسرے آپشن کی بات نہیں کرتا۔

خود مختار کشمیر اِس خطے میں بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بن جائے گا اور اُن کشمیریوں کے عظیم جذبوں کی توہین کے مترادف ہوگا جو بھارت کے بجائے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے اور ترنگے کی جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ وہ اپنے شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ اِس تیسرے آپشن کے مضمرات حد درجہ خطرناک ہو سکتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں اور چین کے خلاف امریکی منصوبوں کو تقویت پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو ایک بار اپنی کشمیر پالیسی کا از سرنو جائزہ لینا چاہئے جس کے بعد جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ جن کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط و مستحکم ہو اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے معصوم اور بے گناہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت اور دفاع بھرپور انداز میں کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے