جوبائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا، ڈونلڈ ٹرمپ تقریب میں شریک نہیں ہوئے

جوبائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا، ڈونلڈ ٹرمپ تقریب میں شریک نہیں ہوئے

واشنگٹن (پاک صحافت) جوبائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا اور ڈیموکریٹ رہنما کمالا ہیرس امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر بن گئیں، تقریب میں امریکا کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے ڈیموکریٹ کے 78 سالہ جو بائیڈن سے حلف لیا جس میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرکت نہیں کی، تاہم نائب صدر مائیک پینس تقریب میں موجود تھے۔

بائیڈن سے قبل کمالا ہیرس نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون نائب صدرکی حیثیت سے حلف اٹھایا، کمالا ہیرس نہ صرف پہلی خاتون نائب صدر بن گئیں بلکہ پہلی سیاہ فام اور پہلی ایشیائی امریکی نائب صدر بھی بن گئی ہیں۔

ڈیموکریٹ رہنماجو بائیڈن نے امریکا کے 46ویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے خطاب میں چیف جسٹس اور امریکا کے عوام سمیت دیگر کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج امریکا اور جمہوریت کامیاب ہوئی ہے، ہم کسی امیدوار کی کامیابی کا جشن نہیں منا رہے بلکہ ایم مقصد کے حصول کا جشن منا رہے ہیں، چند روز قبل یہاں کشیدگی ہوئی تھی لیکن پرسکون انتقال اقتدار ہوا اور امریکا کے مستقبل کے لیے مثبت سوچ رکھتے ہیں۔

امریکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کو بڑھتی سیاسی انتہا پسندی، سفید بالاتری، اندرونی دہشت گردی کا سامنا ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور ہم اس کو شکست دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے آئین اور قوم کی طاقت کا اندازہ ہے، امریکا ہم سب سے وابستہ ہے، ہمارے لوگ عظیم ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا کہ جانتا ہوں کہ ہمیں تقسیم کرنے والی طاقتیں مضبوط ہیں جبکہ ہمیں بہت کچھ ٹھیک کرنا ہے اور معاملات درست کرنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یقین دلاتا ہوں میں سب کا صدر ہوں، جنہوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا میں ان کا بھی صدر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے اور امریکا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے باتوں سے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جمہوریت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔

امریکا کے نائب صدر نے کہا کہ ہمیں اس طرح کی خانہ جنگی کو ختم کرنا ہے جس نے امریکا میں ایک گہری تقسیم پیدا کی ہے اور اس پر ہم اپنے دلوں کو بڑا کرکے قابو پا سکتے ہیں۔

جو بائیڈن ‘ایسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم’ کے مطابق دوپہر 12 بجے حلف اٹھا کر امریکا کے 46ویں صدر بن گئے اور انہیں ایک انتہائی منقسم قوم کی سربراہی اور وراثت میں بحرانوں کا ایک ڈھیر ملا جو ان کے پیش رو کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

امریکا میں رواں ماہ کے اوائل میں ہونے والی کشیدگی اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے صدر کی حلف برداری کی تقریب کو انتہائی محدود رکھا گیا تھا جہاں امریکا کے سابق صدور نے بھی شرکت کی۔

تقریب کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ 6 جنوری کو پیدا ہونے والے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے بڑی حد تک اپنی معمول کی صورتحال سے محروم تھی، جس میں امریکا کے سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی کیپٹل ہل (وہ علاقہ جہاں امریکی حکومت کی اہم عمارتیں واقع ہیں) پر حملہ کردیا تھا۔

امریکی روایات کے برخلاف ڈونلڈ ٹرمپ اپنے جانشین کے ساتھ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بجائے صبح ہی واشنگٹن سے روانہ ہو گئے۔

حلف برداری کے موقع پر ہزاروں افراد کے بجائے امریکی ریاستوں اور خطوں کے عوام کی نمائندگی کرنے کے لیے نیشنل مال کو 2 لاکھ پرچموں اور روشنی کے 56 ستونوں سے مزین کیا گیا تھا۔

قبل ازیں مشیروں نے کہا تھا کہ جو بائیڈن جنہوں نے ‘امریکا کی روح بحال’ کرنے کے عزم کا اظہار کیا، اپنے پہلے خطاب میں اس بحران کے دور میں امریکا کو متحد ہونے کا پیغام دیں گے۔

مشیروں کا کہنا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کا صفحہ پلٹنے کی کوشش میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے اور دفتر میں اپنے پہلے ہی روز عالمی وبا سے لے کر معیشت اور ماحولیات سے متعلق 15 انتظامی اقدامات پر دستخط کریں گے۔

ان کے احکامات میں وفاقی علاقوں میں ماسک کا لازمی استعمال، پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمان اکثریت والے ممالک پر عائد سفری پابندیوں کا خاتمہ شامل ہوگا۔

حلف برداری کی تقریب انتہائی سخت سیکیورٹی سے گھرے کیپٹل ہل کے سامنے ہوئی جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے ان جھوٹے دعوؤں پر مشتعل ہو کر 2 ہفتے قبل عمارت پر حملہ کردیا تھا کہ لاکھوں جعلی ووٹس کے ذریعے نومبر کے انتخاب چوری کرلیے گئے۔

واشنگٹن میں انتہائی تناؤ نے 1861 میں ابراہم لنکن کے عہدہ سنبھالنے کی یاد تازہ کردی جب انہیں خانہ جنگی کے نتیجے میں کسی حملے سے بچانے کے لیے خفیہ طور پر دارالحکومت منتقل کیا گیا تھا۔

انتباہ کے باوجود جو بائیڈن نے تقریب کو عمارت کے اندر منعقد کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس کے بجائے وہ ایک محدود اور سماجی فاصلے والے ہجوم سے خطاب کریں گے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف باہر سے خطرے کا سامنا تھا بلکہ حفاظت پر مامور دستے کے اندرونی حملے کے بڑھتے ہوئے خدشات بھی درپیش تھے جبکہ جوبائیڈن کے لیے خصوصی طور پر کوئی خطرہ نہیں۔

بنیادی طور پر امریکی دارالحکومت میں لاک ڈاؤن نافذ رہا جبکہ 25 ہزار سے زائد دستے اور پولیس اہلکار حفاظت پر مامور رہے۔

گلیوں کو ٹینکس اور رکاوٹیں لگا کر بند کردیا گیا، نیشنل مال بند، امریکی کیپٹل کمپلیکس کے ارد گرد باڑ لگادی گئی، چوکوں پر چوکیاں قائم کی گئیںں جبکہ امریکی خفیہ سروسز تقریب کی انچارج تھیں اورکہا کہ وہ تیار ہیں۔

خیال رہے کہ کیپٹل ہل کے گھیراؤ اور اشتعال انگیزی میں 5 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ عمارت میں موجود قانون ساز چھپنے پر مجبور ہوگئے تھے جس کے بعد شہر میں ہزاروں کی تعداد میں نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو طلب کرلیا گیا تھا۔

اس اشتعال انگیزی پر ڈیموکریٹ اکثریت والے امریکی ایوان نمائندگان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی تھی جو امریکی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی صدر کے خلاف دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہو۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے