واشنگٹن (پاک صحافت) امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن نے ایک اور پاکستانی نژاد امریکی شہری سلمان احمد کو اپنی خارجہ پالیسی کی ٹیم میں شامل کرلیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سلمان احمد، اوباما نیشنل سیکیورٹی کونسل میں اسٹریٹجک پلاننگ کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں اور وہ بحیثیت ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کریں گے۔
گزشتہ ماہ جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری علی زیدی ڈپٹی نیشنل کلائمیٹ ایڈوائزر کی حیثیت سے ان کی ٹیم کا حصی بنیں گے۔
سلمان احمد اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے چیف آف اسٹاف اور اقوام متحدہ میں امریکی مستقل نمائندے کے سینئر پالیسی ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔
سال 2009 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ منسلک ہونے سے قبل سلمان احمد نے پرسٹن یونیورسٹی کے وُڈرو وِلسن اسکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں وِزیٹنگ پروفیسر اور ریسرچ اسکالر کی خدمات انجام دیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے اقوامِ متحدہ کے لیے تقریباً 15 برس کام کیا جس میں اقوام متحدہ کے امن آپریشن کے سربراہ کے لیے چیف آف اسٹاف کا عہدہ بھی شامل ہے۔
سلمان احمد نے یونیورسٹی آف کیمبرج سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی سند جبکہ نیویارک یونیورسٹی کے اسٹرن اسکول آف بزنس سے معاشیات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔
دوسری جانب علی زیدی براہ راست سابق سیکریٹری اسٹیٹ جان کیری کے ماتحت کے طور پر کام کریں گے جنہیں جو بائیڈن کا نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات تعینات کیا گیا ہے۔
علی زیدی نے اوباما انتظامیہ کے ماحولیاتی ایکشن پلان کی تیاری اور عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا اور پریس کلائمیت ایگرمینٹ کے مذاکرات میں بھی معاونت کی تھی۔
جو بائیڈن نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی 2 خواتین کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، سمیرا علی نامی کشمیری نژاد امریکی کو نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کا حصہ بنایا گیا۔
ان کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی عائشہ شاہ کو دسمبر 2020 میں وائٹ ہاؤس ڈیجیٹل اسٹریٹجی ٹیم کی پارٹنر منیجر کی حیثیت سے جو بائیڈن کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔
دوسری جانب ایک بھارتی مسلمان خاتون عذرا ضیا کو اسٹیٹ برائے ہتھیاروں کی روک تھام، جمہوریت اور انسانی حقوق کا انڈر سیکریٹری تعینات کیا گیا۔
امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ جو بائیڈن نے اپنی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ٹیم سابق سفارتکاروں اور اوباما انتظامیہ کے عہدیداروں سے پُر کی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کی 4 سالہ غیر یقینی کے بعد واپس روایتی خارجہ پالیسی اختیار کریں گے۔
ایک بیان میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ متنوع اور کامیاب ٹیم میرے اس بنیادی عقیدے کو ظاہر کرتی ہے کہ جب امریکا اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تو زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔