بھارت میں عوامی آواز کو دبانے کا شرمناک سلسلہ جاری، کسانوں کی حمایت کرنے پر سماجی کارکن کو گرفتار کرلیا گیا

بھارت میں عوامی آواز کو دبانے کا شرمناک سلسلہ جاری، کسانوں کی حمایت کرنے پر سماجی کارکن کو گرفتار کرلیا گیا

نئی دہلی (پاک صحافت) بھارت میں عوامی آواز کو دبانے کا شرمناک سلسلہ جاری ہے جس کے تحت کسانوں کی حمایت کرنے والی سماجی کارکن دیشا روی کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق دہلی پولیس نے کسانوں سے اظہار یکجہتی کرنے والی سرگرم سماجی کارکن 22 سالہ دیشا روی کی بنگلور سے گرفتار کیا ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں اور سماجی حلقوں نے دہلی پولیس کی جانب سے کی جانے والی گرفتاری کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق دہلی پولیس نے بنگلور سے دیشا روی کو گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ہونے والے کسانوں مظاہروں کے دوران ان کی سوشل میڈیا پر مدد کرنے اور احتجاج کا شیڈول سوشل میڈیا پر ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی رکن پر سویڈن کی ماحولیات پر کام کرنے والی سرگرم رکن گریٹا تھنبرگ کی تنظیم کی پشت پناہی حاصل ہونے کا الزام بھی ہے، گریٹا تھنبرگ نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی تھی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق دیشا روی نے دہلی میں گزشتہ ماہ ہونے والے کسان احتجاج کا شیڈول سویڈن کی سویٹا تھنبرگ کے ساتھ بھی شیئر کیا تھا، جسے بہت سی عالمی شخصیات نے ری ٹویٹ کیا تھا۔

دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ بھارت میں ماحولیات پر کام کرنے والی سماجی رکن دیشا روی پر کسانوں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔

اتوار کے روز دہلی کی مقامی عدالت نے دیشا روی کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا جس پر سیاسی اور سماجی حلقوں پیں شدید تنقید کی جارہی ہے۔

گانگریسی رہنما ششی تھرور نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے دیشا روی کی گرفتاری بھارت میں سیاسی اختلاف اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کی تازہ ترین کوشش ہے، گرفتاری کی ایک کڑی ہے، جس کا مقصد آزادی اظہار رائے کو دبانا ہے۔

بھارت میں گریٹا تھنبرگ کی تنظیم سے وابستہ بھورین کنداری نے کہا ہے کہ وہ کوئی بھی بیان جاری کرنے سے پہلے حکومت اور پولیس کے مؤقف کا انتظار کر رہے ہیں۔

چند روز قبل بھارت میں ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران کسانوں اور بھارتی حکام کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے خوراک کے بڑے خرید کنندہ افراد کو فائدہ جبکہ کسانوں کو نقصان ہوگا، بھارتی حکومت اور کسانوں کی یونینز کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے تاہم کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی کسانوں نے مودی سرکار کو متنازعہ قوانین واپس لینے کے لیے 2 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔

بھارتی حکومت نے مذکورہ قوانین کو 18 ماہ تک نافذ کرنے کی پیشکش کی لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرنے تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فرانسیسی سیاستدان

یوکرین میں مغربی ہتھیاروں کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے۔ فرانسیسی سیاست دان

(پاک صحافت) فرانسیسی پیٹریاٹ پارٹی کے رہنما فلورین فلپ نے کہا کہ کیف کو فراہم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے