جیسن ملر

‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کا متبادل لانے کی امریکی تجویز

واشنگٹن{پاک صحافت} امریکی صدر جو بائیڈن نے چین اور مغربی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر چین کے کھربوں ڈالر بیلٹ اینڈ روڈ انفرا اسٹرکچر کا مقابلہ کرنے کے لیے ‘جمہوری’ ممالک کے ساتھ مل کر اسی طرح کے اقدام کی بنیاد رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بائیڈن نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ انہوں نے چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ میں ایغور کی اقلیتی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے لگائی گئی پابندیوں کے سلسلے میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ٹیلی فون کال میں یہ تجویز پیش کی۔

بائیڈن نے بیلٹ اینڈ روڈ کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ میں نے تجویز کیا کہ ہمیں لازمی طور پر ایسا ہی اقدام جمہوری ریاستوں کی طرف سے اٹھانا چاہیے جس سے دنیا بھر میں ان لوگوں کی مدد کی جائے جنہیں حقیقتاً مدد کی ضرورت ہے۔

اس اقدام کے تحت قرضوں اور منصوبوں کے ذریعے حالیہ برسوں میں بیجنگ کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے جس پر علاقائی طاقتوں اور مغربی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔

چین نے متعدد ممالک کو سڑک، ریلوے، ڈیم اور بندرگاہیں بنانے یا تیار کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

صدر ژی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت کھلے، سبز اور صاف ستھرے تعاون کو آگے بڑھانے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود چینی بینکوں نے کوئلے کے منصوبوں کی مالی اعانت جاری رکھی ہے تاکہ وہ اس اقدام کے سہارے بیرون ملک کوئلے کی تجارت پر اثرورسوخ برقرار رکھ سکے۔

چین کی عالمی توانائی کی مالی اعانت کے حوالے سے بوسٹن یونیورسٹی کے ڈیٹا بیس کے مطابق 2000 سے 2018 کے درمیان بیرون ملک توانائی کے منصوبوں پر چین کے دو سب سے بڑے پالیسی بینکوں کے ذریعے لگائے گئے 251 ارب میں سے 23.1 فیصد رقم کوئلہ منصوبوں پر خرچ کی گئی۔

برطانیہ نے اس حوالے سے جاری اعلامیے میں بائیڈن اور جانسن کے مابین گفتگو میں امریکی صدر کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی تجویز کا تذکرہ نہیں کیا لیکن انہوں نے نوٹ کیا کہ دونوں رہنماؤں نے سنکیانگ میں ‘انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والوں’ پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ‘اہم کارروائی’ پر تبادلہ خیال کیا۔

یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات کی روشنی میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے اس ہفتے سنکیانگ کی متعدد سیاسی اور معاشی شخصیات پر پابندیاں عائد کردی تھیں جس پر یورپی یونین اور برطانیہ کے افراد کے خلاف بیجنگ نے انتقامی کارروائی کی تھی۔

سنکیانگ کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے والے چین نے نو برطانوی افراد اور چار اداروں کے خلاف جمعہ کے روز پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایغور کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے معاملے پر ‘بدنیتی پر مبنی جھوٹ بولا اور غلط فہمی پھیلائی’۔

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق سنکیانگ میں کم سے کم 10 لاکھ ایغور اور دوسرے مسلمان گروپس کے افراد کو کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں پر حکام پر خواتین کی زبردستی نس بندی کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جبری مشقت لینے کا الزام بھی عائد ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فرانسیسی سیاستدان

یوکرین میں مغربی ہتھیاروں کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے۔ فرانسیسی سیاست دان

(پاک صحافت) فرانسیسی پیٹریاٹ پارٹی کے رہنما فلورین فلپ نے کہا کہ کیف کو فراہم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے