گیان واپی مسجد

خدا نہ کرے گیان واپی مسجد کا حال بھی بابری مسجد کی طرح ہو

بنارس {پاک صحافت} ہندوستان کے معروف شہر بنارس کی ایک عدالت نے آٹھ اپریل بدھ کے روز حکم دیا کہ شہر کی تاریخی گيان واپی مسجد، مندر توڑ کر بنائی گئی تھی یا نہیں اس بات کی تحقیق کے لیے اس کی کھدائی کی جائے اور پتہ کیا جائے کہ مسجد کی عمارت کے نیچے کیا ہے۔

بنارس کی یہ مسجد شہر کے معروف کاشی وشوا ناتھ مندر کے پاس ہی واقع ہے۔ کئی عشرے قبل ہندو تنظیموں نے اس مسجد کے خلاف یہ دعوی کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا کہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے قدیم وشوناتھ مندر کو توڑ کر اس کی جگہ یہ مسجد تعمیر کی تھی۔

عدالت میں اسی مقدمے کی سماعت کے دوران جج آشوتوش تیواری نے اس مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیتے ہوئے بھارتی آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس کام کے لیے پانچ ایسے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں جو آثار قدیمہ کے علم کے ماہر ہوں۔ عدالت نے اس کمیٹی میں اقلیتی برادری کے بھی دو افراد کو شامل کرنے کو کہا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ اس سروے کا اہم مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ موجودہ مذہبی عمارت ابھی جس مقام پر کھڑی ہے، وہ متنازعہ جگہ یا کسی دوسری مذہبی عمارت کے اوپر تو نہیں ہے، اس میں کوئی رد و بدل تو نہیں کیا گيا، یا پھر کسی دوسری مذہبی عمارت سے اور لیپ تو نہیں ہو رہی ہے۔

ریاست اتر پردیش کے سنی وقف بورڈ نے ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ سن 1991 کے اس مرکزی ایکٹ کے خلاف ورزی ہے جس میں ایسی عبادت گاہوں کو سن 1974 کی حالت کے مطابق برقرار رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔

کئی قانونی ماہرین نے بھی عدالت کے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ سن 1991 کے “پیلس آف ورشپ ایکٹ” کے تناظر میں یہ فیصلہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اس ایکٹ کے خلاف بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ درج کیا گيا تھا،جس پر سماعت ہو چکی ہے اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔

بابری مسجد کمیٹی سے وابستہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق ترجمان قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ نچلی عدالت کے جج نے ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔  انہوں نے کہا، “آج کل کے ماحول میں بہت سے جج موجودہ بی جے پی کی حکومت کی ایما پر اس طرح کے فیصلے سناتے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا، “ہم بھی اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ یہ تو غیر آئینی ہے، اسے واپس لے لیا جانا چاہیے۔”

ہندوؤں کا دعوی

ہندوستان کی سخت گیر ہندو تنظیموں کا ایک زمانے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد، متھرا کی تاریخی عیدگاہ اور بنارس کی یہ گيان واپی مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھیں اس لیے وہ اس پر پھر سے مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔بابری مسجد کو پہلے ہی منہدم کیا جا چکا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کی اجازت سے وہاں مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

اب ان تنظیموں کی نظر متھرا کی عیدگاہ اور بنارس کی اس مسجد پر ہے، جنہیں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں تعمیر کیا گيا تھا۔ یاد رہے کہ ایک عدالت نے اسی طرز پر بابری مسجد کے مقام پر بھی مندر کی تلاش کے لیے آثار قدیمہ سے سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔

آثار قدیمہ سے وابستہ سرکاری حکام نے کھدائی کرنے کے بعد یہ فرمان بھی جاری کر دیا تھا کہ اس مقام پر مندر کی باقیات ملی ہیں۔ حالانکہ بعد میں عدالت نے سرکاری حکام کے اس موقف کو مسترد کر دیا تھا۔

قاسم رسول الیاس کے مطابق گرچہ بابری مسجد کی طرز پر اس مسجد کے لیے ابھی تک کوئی مہم نہیں شروع کی گئی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ عدالت نے اسی تناظر میں یہ فیصلہ سنایا ہے اور چونکہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے اس لیے اس مسجد کے خلاف بھی مہم تیز ہونے کا امکان ہے۔

گيان واپی مسجد کی تاریخ

ہندوستان کے بہت سے مؤرخین اور دانشوروں نے یہ بات لکھی ہے کہ اورنگ زیب اپنی ایک مہم کے لیے بنارس سے گزر رہا تھا تو اس کے قافلے میں شامل کئی ہندو راجاؤں نے اس سے مقدس شہر بنارس میں رکنے کی فرمائش کی تاکہ وہ پوجا پاٹ کر سکیں۔

مندر میں پوجا کے دوران ایک راجہ کی اہلیہ لا پتہ ہو گئی تھی جو بہت تلاشی کے بعد مندر کے تہہ خانے سے مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ اس لیے تمام راجاؤں اور وہاں کے پنڈتوں نے اتفاق رائے اس مندر کے تقدس کے پامال ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے مسمار کرنے کی سفارش کی اور اسی سفارش کی بنیاد پر اس مندر کو گرا دیا گيا تھا۔

وہاں سے کوچ کے وقت مقامی پنڈتوں نے اورنگ زیب سے یہ استدعا بھی کی کہ اس واقعے کے بعد انہیں جان کا خطرہ لاحق ہے اس لیے وہ محافظ تعینات کر دیں۔ اورنگ زیب نے وہاں اپنے مسلم فوجیوں کو تعینات کیا اور موجودہ مسجد انہیں کی نماز کے لیے اسی مندر کے پاس ہی تعمیر کی گئی تھی۔

ماہرین کے مطابق یہ مسجد کسی مندر کے اوپر نہیں بلکے ٹوٹے ہوئے مندر کے پہلو میں بنائی گئی تھی اور ٹوٹے مندر کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

اقوام متحدہ

اردوغان: شامی تنازع کا حل حکومت کا عوام کے ساتھ رابطہ ہے

پاک صحافت ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جمعرات کی شب کہا کہ موجودہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے