شام میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی جنگ سے تباہ حال فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزین سردی کی آمد کو اپنے لیے ایک عذاب سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ سردی سے بچنے کے لیے ان کے پاس نہ تو ایندھن ہوتا ہے، نہ گرم کپڑے اور نہ ہی بجلی اور گیس کی سہولت میسر ہے کہ وہ جان لیوا بن جانے والی سردی کا مقابلہ کرسکیں، یوں بے سروسامانی کے عالم میں حالات کے تھپیڑے کھانے والے فلسطینی پناہ گزین موسمی حالات کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
شمالی شام میں سردیوں کی یخ بستہ شامیں سردی کے ساتھ ساتھ تاریکی اور اپنے ساتھ کئی موسمی بیماریاں بھی لاتی ہیں، پناہ گزین کیمپوں میں عارضی خیموں، شیلٹروں اور یگر عارضی گھروں کے کونوں میں دبے فلسطینی بچے، خواتین اور بزرگ جان لیوا سردی کا کئی ماہ تک مقابلہ کرتے ہیں۔ سردی کا موسم جب اپنے عروج پرہوتا ہے تو کیمپ برس سے ڈھک جاتی ہیں، اس موسم میں فلسطینی پناہ گزین اپنے خیموں میں بند ہو کررہ جاتے، ان کے پاس محنت مزدوری کا بھی کوئی راستہ نہیں بچ پاتا اور ایسے مشکل حالات میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امداد دینے والے ممالک بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
دمشق میں قائم حسینیہ پناہ گزین کیمپ ان کیمپوں میں سے ایک ہے جس میں رہنے والے فلسطین پناہ گزین انتہائی کسمپرسی میں زندگی گذارتے ہیں۔ اس کیمپ کی ایک رہائشی فلسطینی پناہ گزین خاتون فاطمہ نے بتایا کہ سردی کے موسم میں ہمارے پاس ایندھن کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، میں دیکھتی اور تلاش کرتی رہتی ہوں کہ کوئی شخص ہمیں 50 لیٹر ایندھن ہی دے دے مگر میری یہ سوچ اور تلاش رائے گاں جاتی ہے۔
دس پریس سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ہم لوگ بجلی کے ہیٹروں کے ذریعے وقت گذار لیتے تھے مگر اب ہیٹر تو ہیں مگر بجلی دیکھنے کو بھی نہیں ملتی، ہمارے ہیٹر بے کار چیزوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کوئی انہیں خریدنے کوبھی تیار نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیمپ میں ہیٹر جلانے کے لیے استعمال ہونے والے تیل کی بہت کم مقدار دی جاتی ہے اور ہم اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں اس انتظارمیں کئی کئی ہفتے بیت جاتے ہیں۔
حلب میں قائم النیرب پناہ گزین کی گلیاں اور محلے بھی حسینیہ کیمپ کی طرح وحشت، تاریکی، خوف اور پریشانی کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بوسیدہ اور پرانے گھروں کی مرمت تک نہیں کرسکتے۔ ٹوٹی کھڑکیاں، دروازے ہماری حالت زار کا صحیح عکس پیش کرتے ہیں۔
اس کیمپ کے ایک پناہ گزین ابو محمود نے بتایا کہ رہنے کے لیے ان کے پاس صرف جھونپڑیاں ہیں، ہمیں ایک مہینے کے لیے 100 لیٹر ایندھن کے استعمال کا تیل دینے کا اعلان کیا گیا ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ ہمیں کب ملے گا۔ اور وہ مل بھی کیا گیا تو کیا وہ ہمارے لیے موسم سرماں کے لیے کافی ہوگا۔
ابو محمود کا کہنا تھا کہ ایک خاتون کو کم سے کم 400 لیٹر ایندھن چاہیے تاکہ وہ سردیوں کا موسم گذار سکیں۔ شہری مجبور ہوکرلکڑی کی ٹہنیاں اور کاغذ، پلاسٹ، گاڑیوں کے ناکارہ ٹائر اور ایندھن کی جگہ استعمال ہونے والی دوسری چیزیں حاصل کرنے پرمجبور ہیں۔
شمالی شام کے دیر بلوط پناہ گزین کیمپ میں کئی ہزار فلسطینی عارضی طور پر آباد ہیں، ان کے پاس بھی سردیوں میں خود کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں؛ آفا’ نامی ایک ترک تنظیم کی طرف سے مقامی شہریوں میں ہیٹر تو تقسیم کیے گئے ہیں مگر جان لیوا سردی میں ان کے پاس ایندھن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور سماجی کارکن ابراہیم الشہابی کا کہنا ہے کہ بہت سے فلسطینی پناہ گزین خاندانوں کو چولہے تک نہیں مل سکے ہیں، جن لوگوںکو ترک تنظیم کی طرف سے چولہے اور ہیٹر فراہم کیے گئے ہیں ان کی طرف سے ان کے غیرمعیاری ہونے کی شکایات کی گئی ہیں۔
کیمپ میں فلاحی کاموں کے ایک ذمہ دار احمد حسین نے بتایا کہ شمالی شام میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی حالت ناقابل بیان ہے، ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کا موسم پناہ گزینوں کے لیے ایک عذاب لے کرنازل ہوتا ہے اور پناہ گزین کئی کئی ماہ اس عذاب نما موسم کی شدت سے باہر نہیں نکل سکتے، یہ موسم اپنے ساتھ وبائوں کے علاوہ بے روزگاری، تنگ دستی، غربت اور دیگر کئی ایسی آلائشیں اور مشکلات بھی لاتا ہے۔