جہاں کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کے اعداد و شمار کا مسابقتی تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں وبا کی پہلی لہر زیادہ مہلک تھی وہیں ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ چونکہ وائرس نے خود کو تبدیل کرلیا ہے اس لیے موجودہ لہر زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق حکومت کا دعویٰ ہے کہ دونوں لہروں نے عوام کو ایک ہی طرح نشانہ بنایا ہے البتہ فرق صرف یہ ہے کہ موسم سرد ہوگیا ہے۔
وزارت صحت کے حکام نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ اس وقت زیادہ تر مریض ہسپتال جانے کے بجائے گھروں میں رہنے اور خود کو آئیسولیٹ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور دوسری لہر کے دوران صرف شدید علامات والے مریضوں کو ہسپتال لایا جارہا ہے۔
کووِڈ 19 کیسز کے گراف کے مطابق پاکستان میں وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا اور روزانہ ررپورٹ ہونے والے کیسز 4 مئی کو 1083 تھے جو 13 مئی کو 3039 جبکہ وبا پھوٹنے کے 14 ہفتوں بعد 3 جون کو 4344 تک پہنچ گئے تھے۔
بعدازاں اس میں مزی تیزی آئی اور یومیہ رپورٹ ہونے والے کیسز 10 جون کو 5485 جبکہ 14 جون کو سب سے زیادہ یعنی 6825 تک جا پہنچے تھے تاہم اس کے بعد کیسز میں کمی آنی شروع ہوگئی تھی۔
ستمبر میں یومیہ کیسز کمی کے بعد 300 سے بھی کم ہوگئے تھے اور کمی کا یہ سلسلہ 20 اکتوبر تک جاری رہا جس کے بعد روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسز دوبارہ ایک ہزار تک جا پہنچے۔
یومیہ کیسز کی تعداد 10 نومبر کو 2ہزار تک بڑھ گئی اور وبا کے دوبارہ پھیلاؤ کے 7 ہفتوں بعد 6 دسمبر کو 3795 تک جا پہنچی۔
نجی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے مائیکروبائیولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان نے کہا کہ دوسری لہر کے دوران کیسز کی تعداد ریکارڈ ہونے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے افراد اسے رپورٹ نہیں کررہے۔
انہوں نے بتایا کہ وائرس نے اپنے آپ کو تبدیل کرلیا ہے جو پہلے ایم-614 تھا اور اب 614 جی کہلاتا ہے، یہ پروٹین سے بنی چیز ہے جس میں ایسپارٹیٹ نے اپنے آپ کو گلائسین سے تبدیل کرلیا ہے جس کی وجہ سے وائرس مزید تبدیل ہونے کے قابل اور انفیکشن پھیلانے والا ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر جاوید عثمان کا مزید کہنا تھا کہ مکمل صحتیابی کے بہت معمولی امکانات ہیں کیوں کہ وائرس ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود لوگوں کو پیچیدگیوں کا سامنا رہتا ہے، وہ جلد تھک جاتے ہیں ان کی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور انہیں سانس کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا ماننا ہے کہ دوسری لہر کے دوران متعدد افراد ٹیسٹ نہیں کروارہے اور اکثریت علامات ظاہر ہونے کے بعد اپنے آپ کو 14 روز کے لیے آئیسولیٹ کررہی ہے، مجھے خدشہ ہے کہ دسمبر کے اواخر اور جنوری عوام کے لیے سب سے زیادہ مسائل کا باعث ہوگا کیوں کہ بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوچکے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وائرس نے اپنے آپ کو تبدیل کرلیا ہے اور اب لوگ اسے متاثر ہونے کے ایک ہفتے بعد ہی موت کا شکار ہورہے ہیں۔
وزارت صحت کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ لہر زیادہ دیر تک برقرار رہ سکتی ہے کیوں کہ کم درجہ حرارت منتقلی میں مددگار ہوتا ہے، ہم دسمبر کے آخر میں اس کا عروج دیکھ سکتے ہیں جو پورے جنوری جاری رہ سکتا ہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وائرس کی تبدیلی فائدہ مند اور نقصان دہ دونوں ہوسکتی ہے لیکن اکثر یہ تبدیلی نہ نفع دیتی ہے نہ نقصن اس لیے عوام کو اس بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ وبا کی پہلی اور دوسری لہر میں کوئی فرق ہے، کووڈ 19 نیا آیا تھا تو لوگ زیادہ تعداد میں ہسپتالوں کا رخ کررہے تھے اب لوگوں کو اس حوالے سے کافی آگاہی حاصل ہوگئی ہے اور وہ صحتیابی تک آئیسولیشن میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا تھا کہ موسم سرما مسائل کا باعث ہوسکا ہے کیوں کہ لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں، ٹھنڈ کے باعث کھڑکیاں بند کردینے کی وجہ سے بھی انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔