فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی دہشت گردی کے مقاصد

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی دہشت گردی کے مقاصد

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی عقوبت خانے میں ایک فلسطینی شہری پر وحشیانہ تشدد الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فلسطینی قیدی سامرالعرابیدکو دوران حراست غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوراسرائیلی انٹیلی جنس ادارے اور فوج اس جرم کو قانون کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں، ایمنسٹی کے مطابق سامرالعرابید کو اسرائیلی خفیہ اداروں اور فوج نے ملی بھگت سے تشدد کا نشانہ بنایا ۔
کسی فلسطینی قیدی کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا سنگین جرم ہے اور قیدیوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اذیتوں کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔فلسطینی قیدیوں پر تمام مراحل میں غیر انسانی تشدد کیا جارہا ہے ۔فلسطینیوں کی گرفتاری کے بعد انہیں خفیہ ادارے شاباک کے جلادوں کے حوالے کیا جاتا ہے اس کے بعد ایگزیکٹو اتھارٹی انہیں اذیتیں دیتی ہے اور اس کے بعد صیہونی عدالتوں اور سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے قیدیوں کو زدکوب کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست قانون اور آئین کی آڑ میں قیدیوں کے خلاف غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔

خیال رہے کہ فلسطینی اسیر سامر العرابید کو حراست میں لیے جانے کے بعد وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اسکی حالت غیر معمولی حد تک تشویشناک ہوگئی العرابید کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں فلسطین میں اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے “کلب برائے اسیران” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جان لیوا مرض میں مبتلا ایک فلسطینی موسیٰ صوفان میں کینسر کا مرض لاحق ہونے کی تشخیص کے بعد سے جیلوں کے درمیان قیدیوں کو منتقل کرنے والی گاڑی میں ڈال کر اسے مزید اذیت دی گئی اور نام نہاد اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں اسے کسی قسم کی طبی امداد بھی فراہم نہیں کی گئی ۔
صیہونی جیلر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسیر فلسطینی پر نفسیاتی تشدد اور ان پر دباؤ ڈالنے کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اسرائیلی احکام کی طرف سے اسے کینسر کا مرض لاحق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔مگر یہ دعویٰ غلط لگتا ہے اور اسے نفسیاتی دباؤ اور ذہنی تشدد کا شکار کرنے کے لیے کینسر کے لاحق ہونے کا ڈراوا دیا جارہا ہے ۔
بے گناہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے خوفناک صیہونی حربے کے پس پردہ کئی محرکات ہیں ۔فلسطینی شہریوں پردہشت گردی کے جعلی مقدمات قائم کرنا اور ان جعلی اور من گھڑت الزامات کی آڑ میں انہیں قید وبند میں ڈالنا صرف پسند دیدہ مشغلہ بن چکا ہے بلکہ فلسطینیوں کا قیمتی وقت جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بربادکرنا بھی اس حربے کا حصہ ہے ۔
اس وقت بھی سات ہزار کے قریب فلسطینی بچے ،جواں اور مائیں ،بہنیں بیٹیاں دودرجن اسرائیلی عقوبت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں ۔فلسطینیوں کو پابند سلاسل کرنے کے جرائم میں ایک جرم انتقامی قید کا ہے ۔اس کا نام نہاد اور کالے قانون کے ذریعے کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا جاتا ہے اور اسے ابتداء میں تین سے چھ ماہ کی قابل توسیع قید کی سزا دی جاتی ہے ۔
اس کے بعد قید وبند کا یہ لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور انتقامی قیدیوں کی مدت حراست میں بار بارتوسیع کی جاتی ہے۔دور ان حراست ان کے جذبات اورعزائم کی کمر توڑنے کے لیے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔اس طرح فلسطینی اسیران کے دن ہفتوں ،ہفتے مہینوں اور مہینے برسوں میں بدل جاتے ہیں ۔اسرائیلی جیل سے رہائی پانے والے اسیر محمد منیٰ نے کہا کہ میرا قید کا عرصہ ساڑھے سات سال پر مشتمل ہے ۔
اس عرصے میں چار سال انتقامی قید کے ہیں ۔میں اس باب میں اکیلا نہیں ہوں سینکڑوں فلسطینیوں کو انتقامی قید میں ڈال کر انکا قیمتی وقت ضائع کیا جاتا ہے حالانکہ ان پر کوئی الزام تک نہیں ہوتا اور نہ ان پر کسی بھی اسرائیلی مخالف سرگرمی میں شامل ہونے کا کوئی شبہ ہوتا ہے ۔محمد منیٰ کا کہنا تھا کہ گرفتاری کا عرصہ انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے نا صرف اسیر کے لیے بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی۔

جیلوں میں قید کرنا زندوں کو قبرمیں گاڑھنے کے مترادف ہے فلسطینیوں کو جبری طور پر عقوبت خانوں میں ڈالا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی پیشہ وارنہ ،خاندانہ ،سماجی زندگی تباہ ہوکررہ جاتی ہے ۔فلسطینیوں کو قید کرنے کا مقصد ان پر اور انکے اہل خانہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے ساتھ ان کے جذبہ آزادی کو کچلنا ،انہیں بیماریوں کا شکار کرنا اور تھکا دینا ہے تاکہ فلسطینی رہائی کے بعد آزادی کے لیے جدوجہد میں شامل نہ ہوسکیں بلکہ معاشرے پر بوجھ بن جائیں اور عضومعطل ہوکر رہ جائیں ۔
محمد منیٰ کا کہنا تھا کہ فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے مگر انہیں اپنے حق میں بولنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔انہیں اسرائیل کے عادی مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے ۔انکا کہنا تھا مجھے اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے کے الزام میں باربار گرفتار کیا گیا مگر میرا عزم آزادی گرفتاریوں سے کمزور نہیں ہوگا ۔اگر میرے قلم سے فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے لکھنے جانے والی تحریراسرائیلی ریاست کے خلاف نفرت پر اکسانے کا باعث بنتی ہے تو میں یہ جہاد اور بھی زیادہ شدت سے کرونگا ۔
فلسطینی صحافی اور سماجی کارکن نے بتایا کہ صیہونی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار اور تفتیش کا رمجھے باربار کہتے کہ اپنا صحافی پیشہ ترک کردوں ۔مگر جب میں ان سے پوچھتا کہ آپ بتائیں مجھے کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں لکھنا چاہیے تو وہ کوئی جواب نہ دیتے ۔انکا کہنا تھا صیہونی حکام کی طرف فلسطینیوں کو عام قید کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔
بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انتقامی قید کی سزا کا عرصہ دوسری سزا کے عرصے سے بڑھ جاتا ہے ۔ایک سال قبل قابض اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینی صالح البر غوثی کی والدہ ام عاطف البرغوثی نے بیٹے کی شہادت کی برسی پر قوم کے نام ایک پیغام جاری کیا ہے ۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ اور فیس بک پر پوسٹ میں ام عاصف کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے تیری جدائی کو ایک سال بیت گیا ہے ۔
میرے لخت جگر تو نے ہم سے جدا ہونے میں بہت عجلت کامظاہرہ کیا ۔تمہاری جدائی ہمارے لیے بہت دکھ اور تکلیف کا باعث ہے ۔ہمارے دل دکھی ہیں ،مگر میرے بیٹے تیری جیسے جیسے یاد ستاتی ہے میں نماز پڑتی ،سجدے کرتی اور اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے تجھ جیسا صالح بیٹا دیا جس نے اپنی شہادت سے میری آخرت سنوار دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

الاقصی طوفان

“الاقصیٰ طوفان” 1402 کا سب سے اہم مسئلہ ہے

پاک صحافت گزشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر بہت سے واقعات رونما …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے