بھارتی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال کشمیری عوام اور پاکستان کی ذمہ داری

بھارتی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال کشمیری عوام اور پاکستان کی ذمہ داری

(پاک صحافت)  ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ گزر گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں اور انہیں بھارتی دہشت گردوں نے یرغمال بنا رکھا ہے، روزانہ کی بنیاد پر بھارت کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔

عالمی ادارے بشمول اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اسی ماحول میں 5 جنوری یوم حق خودارادیت کشمیر خاموشی سے گزر گیا، صرف مقبوضہ کشمیر میں قائم کنٹروللائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے یوم حق خودارادیت اس عزم سے منایا کہ غاصب بھارت سے آزادی ملنے تک تحریک جاری رہے گی۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949ء کو قرار داد منظور کی تھی جس میں طے کیا گیا تھا کہ کشمیری حق خود ارادیت استعمال کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، وہ اقوام متحدہ جس کی سرپرستی اور نگرانی میں افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے، جس نے مشرقی تیمور کی عیسائی آبادی کو انڈونیشیا سے اور دارفور کو سوڈان سے الگ کرکے آزادی ریاستیں قائم کرادیں، اسے 5 جنوری 1949ء کی قرار داد حق خود ارادیت برائے کشمیر یاد نہیں۔

حالانکہ کشمیر جنوبی ایشیا کی ایسی دو ریاستوں کے درمیان تنازع ہے جو جوہری طاقت بھی رکھتی ہیں، اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق کشمیر متنازع علاقہ ہے، یہ اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ پہلی فرصت میں رائے شماری کا بندوبست کرے جس کے بعد کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کشمیر کی آزادی ہونی چاہیے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا تحفظ پاکستان کے حکمرانوں کا اوّلین فرض ہے، اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا کیا کردار ہے، اس کا اندازہ صدر اور وزیراعظم کے رسمی بیانوں سے کیا جاسکتا ہے۔

صدر پاکستان عارف علوی نے یوم حق خود ارادیت کے موقع پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حق خود ارادیت انسانی احترام کا بنیادی جزو ہے،  عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی یقین دہانیوں اور ذمے داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ دن ہم اقوام متحدہ کے اس ادھورے عہد کی یاد دہانی کے طور پر مناتے ہیں جس کا نبھایا جانا باقی ہے، ہم دنیا سے التماس کرتے ہیں کہ قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اور ان کے حق خود ارادیت کی فراہمی کے لیے اقدامات کرے۔

یوم حق خود ارادیت کشمیر کے موقع پر پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کورکمانڈرز کا اجلاس منعقد ہوا۔

افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں عسکری قیادت کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ بھی کیا، جبکہ بہادر کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قابض بھارتی فوج کے دہائیوں سے جاری ظلم و تشدد بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو دبا نہیں سکے، ان شاء اللہ کشمیری کامیاب ہوں گے۔

اس حوالے سے سینیٹ میں دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کی غیر قانونی حراست کے خلاف قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ یہ قرار داد سیکرٹری خارجہ امور کو بھجوائی جائے اور وہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کو سینیٹ آف پاکستان کی قرار داد بھجوائیں۔

یہ چند جھلکیاں ہیں ان سرگرمیوں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بارے میں رسمی سرگرمیوں کے تقاضے بھی پورے نہیں کرسکی، ان رسمی سرگرمیوں سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے چاہے وہ سابق ہوں یا موجودہ کشمیر پر سودے بازی کرچکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکی غلامی ہے، کشمیر پر سودے بازی کے خدشے کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کیا ہے۔

انہوں نے حکمرانوں سے سوال کیا ہے کہ حکمران قوم کو جواب دیں کہ کشمیر پر کب، کیوں اور کیسے سودے بازی ہوئی؟ سراج الحق کا یہ سوال بنیادی ہے، اسی وجہ سے انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت جنرل گریسی کی پالیسی پر چل رہی ہے یعنی بھارتی فوج کے اقدامات کے جواب میں خاموشی اختیار کی جائے گی جیسا کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے جنرل گریسی کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر میں مداخلت کریں لیکن پاکستانی فوج کے پہلے برطانوی سربراہ نے بانی پاکستان اور گورنر جنرل کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔

برطانوی حکومت کی بددیانتی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیدا ہوا۔ آج بھی امریکا یہ نہیں جانتا کہ کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنے، جس کے بعد مسلمانوں کو عالمی سیاست میں مزید طاقت حاصل ہوگی، جب بھی کوئی ایسا موقع آیا ہے امریکا نے پاکستان کی فوج کو کشمیر میں کوئی عسکری کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔

امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرالیا جائے، اسی پس منظر میں 5 اگست 2019ء کو بھارت کی متعصب حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے انضمام کا آغاز کردیا ہے، اس فیصلے کو کشمیریوں نے تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے کشمیری مکمل محاصرے میں ہیں۔

مقبوضہ کشمیر ایک بڑی جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد حکومت پاکستان کو جو اقدامات کرنے چاہیے تھے وہ نہیں کیے، حکومت پاکستان کے کمزور اقدامات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ ہمارے حکمران کشمیر پر سودے بازی کرچکے ہیں، اس شک میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے عزم کا اظہار کردیا ہے۔

یہ فیصلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف سے دست برداری ہے، یعنی کشمیر ایک متنازع خطہ ہے، گلگت بلتستان بھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسی ہی سودے بازی کی کوشش کی گئی تھی۔

کشمیری ٹھوس مدد کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی فوج کی بندوقوں کے سائے میں کشمیر پاکستان کا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس کی مسلسل قیمت دے رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے حکمران اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

رسمی بیانات سے حکمرانوں کے فرائض ادا نہیں ہوسکتے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی انتشار کا خاتمہ کیا جائے پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت حزب اختلاف، قوم کے تمام طبقات متحد ہو کر مظلوم کشمیریوں کی پشتیبانی کے لیے ایک ہوجائیں۔

یہ بھی پڑھیں

الاقصی طوفان

“الاقصیٰ طوفان” 1402 کا سب سے اہم مسئلہ ہے

پاک صحافت گزشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر بہت سے واقعات رونما …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے