فخر پاکستان، قوم کی شان، پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ

فخر پاکستان، قوم کی شان، پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ

(پاک صحافت) چھے فروری 2021ء کو جب ہم اخبار میں یہ خبر پڑھ رہے تھے کہ محمد علی سدپارہ سردی میں بغیر مصنوعی آکسیجن دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے ہیں۔

تب اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ وہ لاپتا ہو چکے ہیں۔۔۔! کیوں کہ ہم تک یہ تفصیلات بعد میں آئیں کہ جمعے کی سہ پہر سے محمد علی سدپارہ اور ان کے دونوں غیر ملکی ساتھیوں جان سنوری (آئس لینڈ) اور جے پی موہر (چلی) کے رابطے منقطع ہو چکے تھے۔۔۔ ممکن ہے اِس خبر کی اشاعت تک اسے معمول کا واقعہ سمجھا گیا ہو کہ شاید جلد ہی رابطہ بحال ہو جائے، لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی خیر خبر نہ ملی تو یہ واقعہ خبروں میں افسردگی بھرنے لگا۔۔۔

کوہ پیمائی اور علی سد پارہ کی مہم جوئی سے بے خبر رہنے والے بھی سماجی ذرایع اِبلاغ پر اُن کی گم شدگی پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے نیک تمنائیں ان کی نذر کر رہے تھے۔۔۔ دنیا میں ہر لمحے نئے ریکارڈ بنتے اور پرانے ٹوٹتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ریکارڈوں کا شمار دائمی اعزازات میں ہوتا ہے، کیوں کہ وہ کبھی ختم ہو جانے کے خوف سے قطعی آزاد ہوتے ہیں۔۔۔

محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ ریکارڈ بھی ایسا ہی ہے کہ جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔۔۔ جب بھی سردیوں میں کے ٹو کی برف پوش بلندیوں کو تسخیر کرنے کی بات ہوگی، تب تب محمد علی سدپارہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کے نام اس میں سرفہرست ہوں گے۔۔۔ چاہے آنے والے وقتوں میں کتنے مزید کوہ پیما یہ کارنامہ انجام دے جائیں، لیکن محمد علی سدپارہ ان سب پر ہمیشہ اپنی سبقت رکھیں گے۔۔۔

محمد علی سدپارہ 1976ء میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق اسکردو (گلگت بلتستان) کے علاقے سد پارہ سے ہے، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے، جس نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سَر کیا تھا۔ انھیں یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں بھی سر کی تھیں۔

ان کے بیٹے ساجد سدپارہ کو بھی کے ٹو فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی تھی، اس کٹھ مہم میں بھی وہ اپنے والد کے ہم راہ شامل تھے، لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ یہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا، وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا۔

آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے دوسرے کوہ پیما جان سنوری کو بھی کے ٹو سمیت دنیا کی مختلف دشوار گزار چوٹیوں سمیت 10 بلند وبالا چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے، تیسرے کوہ پیما جے پی موپر کا تعلق ملک چلی سے ہے اور وہ بھی ایک کہنہ مشق مہم جو سمجھے جاتے ہیں۔

تینوں کوہ پیما پانچ فروری 2021ء کو سہ پہر کے بعد کوئی رابطہ نہیں کر پائے۔۔۔ ان سے رابطہ جان سنوری کے ٹریکر کے علاوہ تینوں کوہ پیمائوں کے سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی پر کیا جاتا تھا، گم شدگی کے واقعے کے بعد فوجی ہیلی کاپٹروں نے کے ٹو پر 7000 میٹر کی بلندی تک کھوج لگانے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہ مل سکی، کئی مرتبہ ناموافق موسم کے سبب تلاش کا مشن معطل کیا جاتا رہا۔

کوہ پیمائی کی راہ بر کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا کے ٹو بیس کیمپ سے بذریعہ فیس بک تلاش کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے رہے، وہ کہتے ہیں کہ کے ٹو کی بالائی سطح بادلوں سے مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہا، جس کے بعد ہیلی کاپٹر اسکردو لوٹ گئے، الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق حادثے کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔۔۔

محمد علی سدپارہ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ تینوں کوہ پیمائوں نے پانچ فروری کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کرلیا تھا، جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔

مجھ سمیت ہر پاکستانی کیلئے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی جب حکومت نے پاکستان میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والے ملک کے عظیم فرزند محمد علی سدپارہ اور اُن کے غیر ملکی ساتھیوں کی تلاش کیلئے جاری ریسکیو آپریشن ختم کرتے ہوئے اِن کوہ پیمائوں کی موت کا باقاعدہ اعلان کیا۔

پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ رواں ماہ دو غیر ملکی کوہ پیمائوں آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے بوان پابلو موہر کے ہمراہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے ٹو سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوئے تھے جن کے لاپتہ ہونے کی خبر 5فروری کو منظر عام پر آئی جس کے اگلے روز اِن گمشدہ کوہ پیمائوں کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا جس میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا تاہم ریسکیو آپریشن میں 12 روز تک کامیابی حاصل نہ ہونے پر آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔

ریسکیو آپریشن کے دوران ہر پاکستانی یہ دعا کرتا نظر آیا کہ علی سدپارہ کی تلاش کا یہ آپریشن کامیاب ہو۔ تاہم آپریشن میں کامیابی نہ ملنے پر علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اعلان کیا کہ ریسکیو آپریشن کو اُن کے والد کی لاش کی تلاش میں تبدیل کردیا جائے کیونکہ اب اُن کے والد کی زندگی کے کوئی امکانات نہیں۔

کے ٹو پہاڑ کی بلندی 8611میٹر (28244 فٹ) ہے جو دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ سے صرف 200میٹر کم ہے، کے ٹو کی بلندی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ جس کی بلندی 830میٹر ہے، اس جیسی 10عمارتیں کے ٹو میں سماسکتی ہیں۔

کے ٹو کو قاتل چوٹی اور مائونٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے جو ایڈونچر کے شوقین اور بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیمائوں کے دل میں مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے لیکن اِس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والا ہر 4میں سے ایک کوہ پیما موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش میںاب تک 86کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور کے ٹو پر اموات کی شرح 29فیصد ہے جبکہ مائونٹ ایورسٹ پر یہ شرح 4 فیصد ہے۔

کے ٹو کا بوٹل نیک (Bottle Neck) کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8 ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے جسے ڈیتھ زون یعنی موت کی گھاٹی بھی کہا جاتا ہے جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گرکر موت کو گلے لگانا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق اتنی بلندی پر آکسیجن کی کمی اور انتہائی کم درجہ حرارت سے جسم اور دماغ پر سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں جو جسم اور دماغ کے مفلوج ہونے یا جسم کے کسی حصے میں فراس بائٹ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

طبی ماہرین کے بقول انسانی جسم سطح سمندر سے 2100میٹر بلندی تک رہنے کیلئے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی تیزی سے کمی اور منفی اثرات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کوہ پیمائوں کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں زیادہ وقت نہ گزاریں، اِس لئے کوہ پیما تقریباً 16 سے 18 گھنٹے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ جو اپنے والد کی مہم جوئی میں اُن کے ہمراہ تھے، ڈیتھ زون میں آکسیجن کی کمی کے باعث مشن کو خیر باد کہہ کر واپس آگئے تھے۔

ساجد سدپارہ کے بقول اُنہیں یقین ہے کہ اُن کے والد نے کے ٹو چوٹی سر کرلی تھی مگر واپسی پر موسم کی خرابی کے باعث ڈیتھ زون میں کوئی حادثہ رونما ہوا جس کے باعث اُن کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

40 سالہ علی سدپارہ کوہ پیمائی کیلئے پاکستان آنے والے غیر ملکی کوہ پیمائوں کا فیورٹ تھا جو اُسے اپنے ساتھ مہم جوئی کیلئے لے جانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔

علی سدپارہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا مگر غربت اُس کی ترقی میں کبھی حائل نہ ہوئی اور اُس نے ایک کامیاب پیشہ اپناکر نام بنایا۔

سدپارہ نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک پورٹر کی حیثیت سے کیا جو پاکستان میں کوہ پیمائی کیلئے آنے والے غیر ملکی کوہ پیمائوں کا سامان اٹھاکر اُن کے ہمراہ چلتا تھا اور اُس وقت سے علی کی یہ خواہش تھی کہ وہ بھی کے ٹو چوٹی سر کرے۔

اِس مقصد کیلئے علی سدپارہ نے غیر ملکی کوہ پیمائوں سے ملنے والے معاوضے اور ٹپ سے اسکردو کی مارکیٹ سے کوہ پیمائی کا استعمال شدہ سامان خریدا۔

اپنے کیریئر کے دوران علی سدپارہ نے دنیا کی 10 بلند ترین چوٹیاں سر کیں جس میں کئی بار نانگا پربت اور ایک بار کے ٹو سر کرنا بھی شامل تھا۔

علی سدپارہ کے چاہنے والے کوہ پیما دنیا بھر میں موجود ہیں جن کی مہم جوئی میں وہ ہمیشہ مددگار ثابت ہوا۔ علی کی موت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ اُنہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔

شاید اُن کیلئے اِس میں بھی کچھ اطمینان ہو کہ علی سدپارہ کی آخری آرام گاہ اُسی پہاڑ پر ہو جس سے وہ پیار کرتا تھا اور اُسے سر کرنے کی کوشش میں اُس نے اپنی جان تک گنوادی۔

علی سدپارہ آج ہم میں نہیں، وہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے ٹو چوٹی سر کرنے میں شاید کامیاب نہ ہوا مگر اُس نے شہرت اور محبت کی وہ چوٹی ضرور عبور کرلی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

علی سدپارہ پر قوم کو فخر ہے اور آج ہر پاکستانی اُسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے الوداع کہہ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

صہیونی لابی امریکی طلبہ تحریک سے کیوں خوفزدہ ہے؟

پاک صحافت غزہ جنگ کے ابتدائی اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے