پاک-چین دوستی اور خطے کے بدلتے سیاسی حالات

پاک-چین دوستی اور خطے کے بدلتے سیاسی حالات

پاکستان ایئر فورس اور چین کی پیپلز لیبریشن آرمی ایئر فورس کی باہمی جنگی مشقیں ’شاہین 9‘ 24 دسمبر کو اختتام پذیر ہوگئی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی یہ جنگی مشقیں ناصرف دونوں ملکوں کی فضائیہ کے درمیان تعاون کو فروغ دے رہی ہیں بلکہ یہ تعاون خطے کے سیاسی حالات اور پاکستان کی مغربی ٹیکنالوجی سے مشرق کی طرف منتقلی کے لیے بھی اہم ہے۔

پاکستان کے آپریشنل ایئر بیس پر ہونے والی یہ 15 روزہ مشق محض 2 دوست ملکوں کی فضائیہ کا باہمی اشتراک نہیں بلکہ اس کے ہمہ جہت پہلو ہیں۔ جیسے 2 الگ الگ ثقافتی ماحول اور آپریشنل روایات اور سب سے بڑھ کر زبان کے فرق کے ساتھ کام کرنے والی 2 فضائی طاقتوں کا مل کر کام کرنا اور صلاحیتوں کو بڑھانا اہم ترین معاملہ ہے۔

اس کے علاوہ خطے کی جیو پولیٹیکل صورتحال اور ملٹری ایوی ایشن شعبے میں پاکستان کی خود انحصاری یا مغرب سے مشرق کی جانب سفر کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

شاہین مشقوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب حکومتِ پاکستان نے سال 2011ء کو پاک چین دوستی کا سال قرار دیا تھا۔ پہلی شاہین مشق پاکستانی ایئر بیس پر کی گئی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ چینی فضائیہ کے اہلکاروں اور پائلٹس کو غیر ملکی ایئر بیس پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سال 2013ء میں پاک فضائیہ کا عملہ شاہین 2 کے لیے چینی ایئر بیس پر تعینات ہوا اور یہ بھی پہلی مرتبہ تھا کہ کسی غیر ملکی فضائیہ کے عملے کو چینی ایئر بیس پر تعینات کیا گیا ہو۔

پاکستان اور چین کے درمیان شاہین فضائی مشقوں کا مقصد فضائی جنگ میں مہارت کو بڑھانے کے علاوہ فضائی جنگ اور دفاع کے لیے وسائل کو ترتیب دینا اور پائلٹس اور زمینی تکنیکی عملے کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے تاکہ وہ موجودہ پیچیدہ جنگی حالات میں فضائی طاقت کے اظہار کے مختلف طریقہ کار اور حکمتِ عملی کو بھی سمجھ سکیں۔

پاکستان ایئر فورس فضائی جنگ کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہے، پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس نے ناصرف اپنی فضائی حدود میں متعدد معرکوں میں جنگی تاریخ رقم کی ہے بلکہ خلیجی ملکوں میں بھی پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس نے اپنا لوہا منوایا ہے۔

پاکستان ایئر فورس متعدد عالمی فضائی مشقوں کا بھی حصہ ہے اور دنیا کی بہترین فضائی افواج کے ساتھ مشق کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ پاک فضائیہ امریکا، اٹلی، ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، اردن اور سعودی عرب کی فضائی افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی فضائیہ کے اعلیٰ ترین افسران پاک فضائیہ کے پائلٹس اور دیگر عملے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

شاہین 3 مشق سال 2014ء میں منعقد کی گئی جس کی اختتامی تقریب سے پیپلز لیبریشن آرمی ایئر فورس کے میجر جرنل رین ہون شن کا کہنا تھا کہ ’پاک فضائیہ اعلیٰ درجے کی پیشہ ورانہ تربیت کی حامل فضائی قوت ہے جس کو طویل عرصے سے غیر ملکی فضائی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں میں حصہ لینے کا وسیع تجربہ ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس جارحانہ جنگی انداز اور بہادری سے لڑنے کی صلاحٰیت رکھتے ہیں۔ یہ تربیت بھی ایسے حاصل کرتے ہیں جیسے جنگ لڑ رہے ہوں، ہم نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

شاہین مشق کا ابتدائی ہفتہ زیادہ تر جائزے اور منصوبہ بندی کا ہوتا ہے جس میں فضائی مشق کے مقاصد اور اہداف کو طے کرکے ایک وار گیم ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس وار گیم میں فضا سے زمین پر اہداف کی تلاش، اہداف کو لاک کرنا، فضا سے فضا میں مار کرنے کے علاوہ طیاروں کے درمیان ڈاگ فائٹ اور فضائی حملے کی صورت میں زمینی ایئر ٖڈیفنس کو الرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جوابی کارروائی کرنے کی مشق شامل ہوتی ہے۔ ان تمام مشقوں میں تیاری اور ردِعمل کا دورانیہ منٹوں اور سیکنڈوں کا ہوتا ہے جو ان مشقوں کو نہایت پیشہ ورانہ اور معیاری بنا دیتا ہے۔

اس فضائی مشق کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر دوست فضائیہ سے ممکنہ مدد کا تعین بھی کیا جاسکے۔ ان فضائی مشقوں میں لڑائی سے زیادہ مل کر کام کرنے اور بروقت فضائی آپریشنز سرانجام دینے کی صلاحیت کو پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔

فضائی جنگ زمین پر موجود حالات کے لحاظ سے اپنے منفرد انداز میں لڑی جاتی ہے اور زمین یا سطح پر موجود حالات جنگی فیصلوں اور حکمتِ عملی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فضائی جنگ میں دشمن کو سمندر کے اوپر للکارنا ہو تو حکمتِ عملی، طیاروں کا انتخاب، اڑنے کی فارمیشن اور دیگر معاملات صحرا، میدان اور پہاڑی خطے کی جنگی حکمتِ عملی سے مختلف ہوں گے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد بھارت اور مغربی طاقتوں کی جانب سے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لداخ اور اکسائے چین کے متنازعہ علاقوں میں کشیدگی کو ہوا دی جارہی ہے۔ کشمیر میں کیے جانے والے بھارتی اقدامات کے حوالے سے پاکستان کے علاوہ چین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کو اپنے پہاڑی علاقوں میں مشترکہ فضائی دفاع کے قیام کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ بھارت کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔

18 دسمبر کو جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ شاہین 9 مشق کا معائنہ کرنے پاک فضائیہ کے ایئر بیس کا دورہ کررہے تھے تو عین اسی وقت پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متحدہ عرب امارات کے دارلحکومت ابوظہبی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انکشاف کیا کہ بھارت اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس سے قبل 10 دسمبر کو بھی شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کرنے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔

فروری 2019ء میں بھارت نے ایک آپریشن کیا تھا جس میں بھارتی طیارے نے پاکستانی فضائی حدود کو عبور کرکے واپس جاتے ہوئے رات کی تاریکی میں پاکستانی علاقے میں بم گرائے تھے۔ بھارت نے دعویٰ کیا تھا دراصل اس نے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا ہے، حالانکہ وہاں چند درختوں کے علاوہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ لیکن پاک فضائیہ نے اگلے ہی روز سورج کی روشنی میں ایسا جواب دیا تھا کہ وہ بھارت کی شرمندگی اور تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔

دوسری جانب بھارت مسلسل چین کے ساتھ متنازعہ علاقوں میں چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے۔ لداخ میں چین بھارت جھڑپ میں دوبدو لڑائی میں کئی بھارتی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ ان دونوں سطح پر بھارت کو جنگی مار کے بعد عالمی سطح پر مجروح ساکھ کو بحال کرنے کے لیے بھارت پاکستان یا چین کے ساتھ کسی ایسے ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے جس میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہوں۔

ان حالات میں پاک چین فضائیہ کا شمالی علاقوں میں بلند پہاڑوں میں فضائی مشق دنیا کے لیے پیغام ہے کہ جہاں دنیا کے 2 بلند پہاڑ ‘کے ٹو’ اور ہمالیہ ہیں، ان 2 ملکوں کی فضائیہ ان پہاڑوں سے بھی بلند حوصلے کے ساتھ جنگی تیاری کررہی ہیں اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں دونوں فضائیہ مل کر منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں۔

اس وقت خطے کے سیاسی حالات کیا ہیں اس کا اظہار شاہین 9 کی اختتامی تقریب سے خطاب میں چین کے سفیر نونگ رونگ نے کھل کر کیا اور کہا کہ ‘موجودہ سیکیورٹی حالات میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے باعث بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے اور مشترکہ چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے دونوں ممالک اور ان کی مسلح افواج کا باہمی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مشق کے دوران دونوں فضائی افواج نے عسکری میدان میں متعدد کامیابیاں اور مشترکہ مقاصد حاصل کیے ہیں۔

اگر جنگی طیاروں کی بات کی جائے تو پاک فضائیہ کے پاس ایک سے زائد قسم کے طیارے موجود ہیں جس میں امریکی ساختہ ایف 16، چینی اور پاکستانی ساختہ جے ایف 17 تھینڈر اور میراج طیاروں کے علاوہ دیگر طیارے بھی موجود ہیں، 1990ء کی دہائی میں پریسلر ترمیم اور دفاعی پابندیوں کے بعد پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت میں خود انحصاری پیدا کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے۔ پاک فضائیہ نے مغربی جنگی آلات سے جان چھڑاتے ہوئے چین کے تعاون سے جے ایف 17 طیارہ بنایا اور اس کو اپنی فضائیہ میں کامیابی سے شامل کرلیا ہے۔

حالیہ جنگی مشق شاہین 9 میں بھی پاکستانی فضائیہ کی جانب سے چین میں تیار کردہ ملٹری ایوی ایشن آلات کا استعمال کیا گیا ہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے شاہین 9 کا معائنہ کیا اور اس دوران انہوں نے مشق میں شامل چینی لڑاکا طیارے کا تجربہ بھی کیا۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ ایئر چیف نے جس چینی طیارے میں پرواز کی اس کی کوئی فوٹیج منظر پر نہیں آئی اور یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ جو ‘جے 10’ شاہین 9 کا حصہ تھے ان پر چین کا جھنڈا نہیں تھا، تو کیا مستقبل میں ایک اور سرپرائز دشمن کے لیے تیار کھڑا ہے؟

ایئر چیف مارشل مجاہد انور کا کہنا تھا کہ ‘موجودہ حالات کے تناظر میں چینی ملٹری ایوی ایشن ٹیکنالوجی دورِ جدید کی عسکری ضروریات کا ایک اہم جزو ہے اور عصرِ حاضر کے تمام چیلنجز سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ چینی پائلٹس کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرتے ہوئے ایئر چیف نے کہا کہ چینی پائلٹس عسکری ہوابازی کی غیر معمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں’۔

پاک فضائیہ کے سربراہ کا یہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ پاک فضائیہ نے چین کے تعاون سے فضائی دفاعی شعبے میں مغربی انحصار کو کم سے کم کرتے ہوئے جنگی طیاروں کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی چینی ملٹری ایوی ایشن کا استعمال بڑھا دیا ہے جس میں ریڈار، میزائل، گراؤنڈ کنٹرولز، ایئر ڈیفنس، ارلی وارننگ سسٹم اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔

پاکستان فضائیہ کی دفاع اور جنگی آلات میں اسی خود انحصاری کو قائم کرنے کے لیے کامرا کے مقام پر قائم ایروناٹیکل کمپلیکس کو ایوی ایشن سٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس میں ایوی ایشن صنعت کے حوالے سے نئے نئے ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ ایوی ایشن سٹی کے قیام کا مقصد پاکستان کو عسکری اور شہری ہوابازی کے شعبے میں جدید اور مقامی سطح پر تیار کردہ کم قیمت آلات کی فراہمی ہے۔ اس ایوی ایشن سٹی میں پہلے ہی 58 فیصد جے ایف 17 تھنڈر کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ایوی ایشن سٹی میں آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز کے لیے پرزہ جات کی تیاری بھی کی جائے گی۔

پاک فضائیہ نے اس سے قبل جولائی 2017ء میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ پروجیکٹ عزم میں ففتھ جنریشن وار فیئر کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس میں بغیر پائلٹ کے ایسے لڑاکا طیارے تیار کیے جائیں گے جو طویل فاصلے تک دشمن کو مارنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

پاکستان اور چین کے درمیان فضائی جنگی مشقوں کا اشتراک ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع میں خود انحصاری کی جانب بڑھتا ہوا قدم بھی ہے۔ دونوں ملک جو بھی فضائی جنگی آلات تیار کررہے ہیں شاہین مشقیں ان آلات کی آپریشنل کارکردگی کا جائزہ لینے کا اہم موقع بھی فراہم کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سوریہ

شام میں جاری بدامنی کو عراق تک پھیلانے پر تشویش؛ مبصرین کی نظر میں کون سے خطے بحران کا شکار ہیں؟

پاک صحافت کچھ روز قبل شام میں بدامنی شروع ہونے کے عین وقت پر عراقی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے