یوم قائد، نظریہ پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جرات اور استقامت

 یوم قائد، نظریہ پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جرات اور استقامت

آج 25 دسمبر 2020 کو ملک بھر میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا 145 واں یومِ پیدائش مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، ہر سال کی طرح امسال بھی حکومت پاکستان نے یومِ قائد اعظم کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا ہے جبکہ محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دار الحکومت کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں کیا، 1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے جہاں سے ان،وں نے 1896 میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور بیرسٹر کی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے۔

بابائے قوم نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا تاہم 1913 میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی،اس دوران ان،وں نے خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

کراچی میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل پر پاکستان نے جنم لیا، قائدِ اعظم کی قیادت میں برِصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی، بلکہ تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔

قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زندگی جرأت، ان تھک محنت، دیانت داری، عزمِ مصمّم ، حق گوئی کا حسین امتزاج تھی، برصغیر کی آزادی کے لیے بابائے قوم کا مؤقف دو ٹوک رہا، نہ کانگریس انھیں اپنی جگہ سے ہلا اور نہ ہی کوئی انگریز سرکار انہیں خریدنے میں کامیاب ہوئی۔

مسلمانان برصغیرنے انگریزسامراج کی سازشوں اور ہندو بنیے کی چالبازیوں کے باوجود اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کو ممکن کردکھایا۔

 ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھاتھا لیکن اس کی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قسمت میں لکھی تھی جنھوں نے مسلمانان برصغیر کو ایک منظم قوم میں بدلا، اوراپنے اخلاص،بلند کردار، جرات و استقامت، اصول پسندی اور دوقومی نظریے پریقین کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

آج اگر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں سیکولرازم کی تازہ لہر چل نکلی ہے تو اس کے پسِ پشت عالمی منصوبہ بندی کا شبہ بھی ناممکن نہیں۔ اور اس قسم کی منصوبہ بندی کا اہم ترین ہدف یہ ہے کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکوں کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔

بے شک پاکستان میں صحافت کو اور صحافیوں کو آزادء رائے کی سہولت حاصل ہے۔ اسی سبب اگر … پاکستان کے سیکولر مزاج صحافی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے مضامین میں پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ کرتے ہیں تو اس پر غصہ یا ناراضگی کا جذباتی اور غیر ضروری اظہار مناسب عمل نہیں۔ بلکہ ایسے مواقع پر ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ صحافتی طبقہ بھی کھل کر سامنے آئے جس کے نزدیک نظریہ پاکستان کا دوسرا نام اسلام ہے۔

نظریہ پاکستان…یعنی پاکستان آئیڈیالوجی کی اصطلاح کب اور کس سوچ کے تحت استعمال کی گئی؟ کیا پاکستان کا مطالبہ حقیقت میں محض زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کی خاطر کیا گیا تھا؟

جس ریاست کے دستور کے پیشِ نظر شریعتِ اسلامی رہی ہو کیا اس ریاست کو سیکولر ریاست کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ کیا قائد پاکستان نے نظریہ پاکستان کا نعرہ کبھی استعمال ہی نہیں کیا تھا؟

کیا یہ حقیقت ہے کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح جماعتِ اسلامی کی قائم کردہ ہے؟اِن تمام سوالات کے جوابات سے نئی نسل کو واقف کرانے کی خاطر آج یہ امر ضروری ہو گیا ہے کہ تاریخِ قیامِ پاکستان کے گمشدہ اوراق کو تلاش کیا جائے۔

نظریہ پاکستان یا پاکستان آئیڈیالوجی یا پاک آئیڈیالوجی کی اصطلاح سب سے پہلے ’’لفظ پاکستان‘‘ کے خالق چودھری رحمت علی نے 1934ء میں استعمال کی تھی، ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں ’’ہندوستانی وحدت کے موہوم راز پر پاک آئیڈیالوجی کے بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے وحدانی علاقائیت ، وحدانی قومیت کے عمومی تصور کو ختم کر دیا اور اس کے بجائے کثیر القومیت اور کثیر علاقائیت یعنی دینیہ (جنوبی ایشیا) کے تصور کو پروان چڑھایا۔‘‘

نظریہ پاکستان کا تعلق یقینی طور پر تحریکِ پاکستان سے مربوط ہے۔ خود قائد پاکستان نے بھی نظریہ پاکستان کے الفاظ اپنی تقریروں میں ارشاد فرمائے تھے۔

’’ہم اپنی سخت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے قوت بہم پہنچا سکتے ہیں ، ہم نہ صرف آزادی کے حصول کے لیے اپنے لوگوں کی معاونت کر سکتے ہیں ، بلکہ ہم انہیں اس قابل بھی بنا سکتے ہیں کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور اسلامی آدرش اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔

پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں ہے ، اس کا مطلب مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جس کا تحفظ کیا جانا باقی ہے ، جو ہم تک ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر پہنچا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسری (اقوام) بھی اس میں حصہ دار بن سکتی ہے۔‘‘

اسلام دشمن طبقہ نے جب قائد پاکستان کی ایک تقریر کا من چاہا مفہوم اخذ کرتے ہوئے یہ منفی پروپیگنڈا شروع کیا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ تب قائد پاکستان نے بھرپور انداز میں اس شرانگیزی کی مذمت کی تھی۔

25 جنوری 1948ء کو کراچی بار اسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد پاکستان نے فرمایا تھا : ’’میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا ، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں ، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں ، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

علاوہ ازیں قائد پاکستان نے 4۔ فروری 1948ء کو سبی میں خطاب کے دوران یہ واضح ترین الفاظ بھی ارشاد فرمائے : ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے جو ہمارے عظیم واضعِ قانون پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں یہ فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو‘‘

بیسویں صدی میں جابجامسلم ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ہیں،جغرافیہ اورتاریخ بدلی ہے۔اورظاہر ہے کہ کسی نے طشت میں رکھ کر مسلمانوں کو آزادی پیش نہیں کی ہے بلکہ کشمکش اور آگ اور خون کے دریا پار کرکے آزادی حاصل کی گئی ہے۔ ہر ایک جو اپنا پاکستان بنا رہاتھایا اپنے ہی ملک کے اندر استعمار کو بھگا رہاتھا،توہر جگہ کے لحاظ سے نعرہ یہی تھا’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘،اور یہ اسلام کا مضبوط حوالہ تھاجس نے لوگوں کے اندر کردار،جدوجہداور کوشش و کاوش کا ایک عنوان اور بڑے پیمانے پر قربانیاں دے کر کشمکش مول لینے کا کلچر پیداکیا۔

لہٰذا اس اعتبار سے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اگر ستاون ملک دنیا کے نقشے پر آزاد مسلمان ملک کہلاتے ہیں تو حقیقتاً ان کی بڑی تعداد اسلام اور کلمے کے نام پرآزاد ہوئی ہے۔ خود برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں انسان آگ اور خون کے دریا سے گزرے۔ بہنوں بیٹیوں کے دامن عصمت تار تار ہوئے اورلوگ لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان پہنچے۔ظاہر ہے کہ یہ قربانی اور جدوجہدکسی مادی مفاد کے لیے نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کے لیے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے جارہا تھا۔ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب بھی حصول پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا توان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا جہاں قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔انہوں نے بارہا کھل کر یہ بات کہی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کی کوشش ہے جہاں مسلمان اسلامی ضابطہ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں۔21 نومبر 1945ء کو فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات، اپنے تہذیبی ارتقاء ، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔ ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔‘‘ اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’لیگ ہندوستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی عَلم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں۔‘‘

قائد اعظم نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص اوربرصغیر کے مسلمانوں کے ایک جداگانہ قوم ہونے کی بات کی تو یہ کسی مصلحت یا رسمی اور روایتی طور پرنہیں تھی بلکہ انھوں نے ایک عملی حقیقت کے طور پراسے بیان کیا۔وہ مسلمانوں کے ملّی تشخص کے دل سے قائل اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے آرزو مند تھے۔

جمیل الدین احمد اپنی کتاب ’’مسٹر جناح کی تقریریں اور تحریریں‘‘ میں لکھتے کہ گاندھی سے خط و کتابت کے دوران ستمبر 1944ء میںقائد اعظم ؒ نے گاندھی کو لکھا:

’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو ’’قوم‘‘ کی ہر تعریف اور معیار پر پوری اترتی ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فنِ تعمیر، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج اور تقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے۔ اور قانونِ بین الاقوامی کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔اور 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :

“قیام پاکستان، جس کے لئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ ‘‘

قائداعظم کی یہ دیرینہ خواہش رہی کہ پاکستان کا نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جہاں کے باشندے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور اسلام کے نظام عدل و انصاف سے مستفید ہوسکیں۔ قائد اعظم کی تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کوصرف چند عقیدوں،روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لییایک ضابطہ سمجھتے تھے جو اس کی زندگی اور کردار کو سیاست و معیشت اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں انظباط عطا کرتا ہے۔

انہوں نے متعدد مقامات پر کہا کہ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ روحانی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی سمیت زندگی کا کوئی پہلوایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔

 قائد اعظم کے تصور پاکستان کے یہ وہ خدوخال ہیںجو ان کی مختلف تقریروں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ایک اسلامی ریاست کا وہ تصورپیش کرتے ہیں جس کو عملی جامہ پہنا کرہم نہ صرف موجودہ چیلنجز سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار اور ترقی یافتہ قوم کی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

نیتن یاہو

مغربی مداخلت کے بغیر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کیسی ہوگی؟

پاک صحافت ایران کا اسرائیل کو جواب حملے کے خاتمے کے بعد عسکری تجزیہ کاروں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے