کورونا وائرس، احتیاطی تدابیر اور سہولیات کی کمی

کورونا وائرس، احتیاطی تدابیر اور سہولیات کی کمی

کورونا وائرس کی بے رحم وبا کا زیادہ تر شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اُن احتیاطی تدابیر کی پروا نہیں کرتے جن پر سختی سے عمل کرنے کا مشورہ ماہرین اور معالجین دیتے ہیں اور جنہیں اختیار کرنے پر حکومت مسلسل زوردے رہی ہے مگر پشاور ٹیچنگ اسپتال کے سات مریض خود اُن لوگوں کی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے جو نہ صرف اِن تدابیر اور ہدایات پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں بلکہ مریضوں کو جان بچانے والی ادویات اور دوسری سہولتیں بہم پہنچانے پر مامور ہیں اور یہ دیکھنا بھی اُنہی کی ذمہ داری ہے کہ یہ سہولتیں مناسب اور مقررہ وقت پر پہنچائی بھی جارہی ہیں یا نہیں۔

اِس لحاظ سے اسپتال کا متعلقہ عملہ اور نگران مشینری اِس سانحہ دل گداز کی ذمہ داری سے مبرا قرار نہیں دی جا سکتی، بتایا گیا ہے کہ مریض آکسیجن کی کمی اور آکسیجن سلنڈر بروقت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے، یہ افسوسناک واقعہ اتوار کی صبح تقریباً پونے تین بجے پیش آیا، آکسیجن کی کمی کا سبب یہ تھا کہ سپلائر وقت پر آکسیجن سلنڈر اسپتال میں نہ پہنچا سکا۔ اسپتال کو روزانہ 5ہزار لیٹر آکسیجن مہیا کی جاتی ہے جو ویسے بھی ضرورت کے مقابلے میں کافی کم ہے، سپلائی بروقت نہ ہونے سے مجموعی طور پر کوئی دو سو مریض متاثر ہوئے جن میں کورونا کے 96مریض بھی شامل تھے۔

اُن میں سے 45سے 65سال تک کی عمروں کے سات افراد دم توڑ گئے جو انتہائی نگہداشت اور آئسولیشن یونٹ میں تھے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت نے فوری نوٹس لیکر ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے جسے 48گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

رپورٹ تو آجائے گی اور شاید کچھ لوگوں کے خلاف کاروائی بھی ہو جائے مگر جو لوگ جان سے گئے وہ واپس نہیں آئیں گے، کورونا وائرس کی پہلی لہر کے خاتمے کے ساتھ ہی عالمی سطح پر دوسری اور زیادہ خطرناک لہر کی آمد سے دنیا کو خبردار کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی حکومت نے لوگوں کو بروقت اِس سے آگاہ کیا اور احتیاطی تدابیر کی تشہیر کے ساتھ قانون سازی بھی کی جس کی رو سے اِن تدابیر یا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے افراد اور کاروباری مراکز کیلئے سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔

اِن ہدایات پر زیادہ سے زیادہ جزوی طور پر عمل ہورہا ہے کیونکہ پہلی لہرکے کم نقصانات کی وجہ سے لوگوں نے زیادہ فکر مندی کا مظاہرہ نہیں کیا، حالانکہ یہ حقیقت سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ دنیا میں 15لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں۔

وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 8کروڑ کے قریب ہے، پاکستان میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ساڑھے 8ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ کورونا کی دوسری لہر کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی یومیہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، اتوار کو  8مریض جاں بحق ہوئے اور مزید 3803افراد وائرس کا شکار ہو گئے۔

ملک میں اب تک لاکھوں افراد کو یہ مرض لاحق ہو چکا ہے مگر خوش قسمتی سے شفایاب ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، پھر بھی فی الوقت 53ہزار سے زائد افراد کو وائرس نے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔

امریکہ روس جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ میں کورونا وائرس کی ویکسین تیاری کے مراحل میں ہے، مارکیٹ میں اِس کے دستیاب ہونے کی فوری امید نہیں کی جا سکتی اور جب آئے گی تب بھی اتنی مہنگی ہوگی کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ اُسے خرید نہیں سکیں گے۔

ایسے میں اِس وبا کے مقابلے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کے نافذ کردہ احکامات اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے حکومت کو بھی چاہئے کہ اسپتالوں میں داخل مریضوں کے علاج کیلئے تمام ضروری سہولتیں یقینی بنائے تاکہ پشاور جیسا سانحہ دوبارہ نہ پیش آئے۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے