کورونا وائرس حقیقت یا سازش؟؟؟

کورونا وائرس حقیقت یا سازش؟؟؟

(پاک صحافت) کورونا وائرس کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہوئی ہے چنانچہ دنیا اس مرتبہ پہلے سے زیادہ محتاط ہے، یہ فوراً لاک ڈاؤن کی طرف جارہی ہے۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس آیا ملک میں اب تک 3 لاکھ 90 ہزار مریض سامنے آچکے ہیں، دوسری لہر شروع ہوتے ہی کیسز کی تعداد 5 گنا ہو چکی ہے، روزانہ 2سے 3ہزار نئے مریض سامنے آ رہے ہیں،9000 کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

دوسری لہر شروع ہوتے ہی دنیا محتاط ہوگئی مگر ہم اب تک کورونا کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، آدھے سے زیادہ ملک اسے سازش قرار دے رہا ہے، کوئی اسے یہودی لابی کے کھاتے میں ڈال رہا ہے اور کوئی اسے بل گیٹس کا کارنامہ بتارہا ہے، کچھماہرین اسے پاکستانی میڈیا اور حکومت کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے حکومت امداد کے چکر میں کورونا کا ڈرامہ رچا رہی ہے، کوئی پوچھے، جناب چند ملین ڈالر کی امداد کے لئے کوئی ٹریلینز میں اپنا نقصان کیوں کروائے گا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا، ہم بھی پوری دنیا کی طرح کورونا کی پہلی لہر سے سیکھتے مگر جسے تسلیم ہی نہیں کیا اس سے سیکھنا کیا؟ پوری دنیا کورونا کی دوسری لہر سے آگاہ تھی، یہ بات ہماری حکومت اور اپوزیشن سے بھی ڈھکی چھپی نہ تھی لیکن آپ ان کی نالائقی دیکھیں، جب باقی دنیا دوسری لہر سے نپٹنے کی تیاریوں میں مصروف تھی ہم جلسے جلوس نکال رہے تھے اور اب بھی نکال رہے ہیں، کورونا کی ویکسین تیار ہو چکی ہے، پوری دنیا ویکسین کی بکنگ کروا رہی ہے لیکن ہم اس سلسلے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔

گزشتہ سال دنیا میں بہت سے سانحات اور واقعات رونما ہوئے جو تاریخ کا حصہ بنیں گے جبکہ کورونا وائرس جیسے موذی مرض نے دنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا اور پاکستان سمیت پوری دنیا کے عوام اس بیماری کو ساتھ لے کر نئے سال میں داخل ہوئے،  یہ وائرس پچھلے سال لاکھوں زندگیاں نگل گیا، اس نے بڑی بڑی عالمی طاقتوں کے عوام اور حکمرانوں کے گھٹنے ٹکوا دیئے۔

اب بھی آئے دن وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، دوسری لہر نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

وائرس سے متاثرہ دنیا کے دیگر ممالک میں حالات بہت زیادہ گھمبیر ہیں، اسپین نے ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے جو مارچ تک بڑھ سکتی ہے، برطانیہ نے ایک ماہ، فرانس نے دو ہفتوں، جرمنی نے 4ہفتوں کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے، اٹلی اور دیگر ممالک کی حکومتیں ہفتہ رواں میں اپنے اپنے حساب سے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیں گی۔

کورونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کیا گیا۔ جس کا مقصد لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنا تھا، شروع میں عوام میں بہت زیادہ خوف و ہراس تھا، اس لیے لوگوں نے احتیاط کا مظاہرہ بھی کیا اور اللہ تعالی کے کرم سے پاکستان میں کورونا اس تیزی سے نہ پھیلا جیسے دوسرے ممالک میں پھیلا، لیکن لوگوں میں اب وہ ذمہ داری کا جذبہ دکھائی نہیں دے رہا، اب لوگ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں۔ ریسٹورنٹس ہوں یا پارکس لوگوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے، جن میں بیشتر نے ماسک تک نہیں پہنے ہوتے، لوگ سماجی فاصلے کو بھی بری طرح نظرانداز کر چکے ہیں۔

کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہمارے ہاں تعلیمی ادارے،مساجد و مدارس حکمرانوں کے احکامات پر بند ہوئے لیکن کیا تعلیمی اداروں، مساجد و مدارس کے علاوہ کورونا ایس او پیز پر کہیں کوئی عمل ہوا؟ مساجد میں تو نمازیوں کے درمیان فاصلے ناپے گئے لیکن کیا کسی حکومتی وزیر اور مشیر نے اس وقت کبھی بازاروں اور مارکیٹوں میں، انسانوں کے جمگھٹے کا کبھی کوئی نوٹس لیا؟ نمازیوں کو 3 اور 6 فٹ کا فاصلہ اختیار کرنے کا درس دینے والے وزیر اور مشیر بازاروں، بسوں، ویگنوں اور مارکیٹوں میں ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر اس طرح خاموش رہے کہ جیسے یہ نہ کچھ سنتے ہوں اور نہ ہی ان کو کچھ نظر آتا ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اس کی سنگینی کا احساس کریں اور جو احتیاطی تدابیر ہیں ان کو اختیار کریں، زندگی بہت قیمتی چیز ہے، اس کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے،ذرا سی بے احتیاطی کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، احتیاط کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اور ہمارے پیاروں کو محفوظ رکھے۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے