غزہ:(پاک صحافت) پوری دنیا کی طرح سال 2020ء اہل فلسطین بالخصوص دوسرے ممالک میں عارضی طور پر قیام پذیر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مشکلات کا سال تھا۔ اردن میں پناہ گزین فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ جب امریکا نے ‘سنچری ڈیل’ نامی ایک نام نہاد منصوبہ پیش کیا تو اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی مشکلات بڑھ گئیں مگر رہی سہی کسر کرونا کی وبا نے نکال دی۔
امریکا نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی ‘اونروا’ کی امداد بند کردی جس کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات بڑھ گئیں اور فلسطینیوں کو بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
جنوری 2020ء کی 28 تاریخ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰمیں قیام امن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کررہے ہیں جسے میڈیا میں ‘سنچری ڈیل’ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی امریکا نے فلسطینی پناہ گزینوںکو دی جانے والی امداد روک دی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے امداد روکے جانے کا اعلان بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کے حوالے سے منظور کی جانے والی قراردادوں کی نفی ہے۔
اردن میں قیام پذیر فلسطینی پناہ گزینوں کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد امن منصوبے کے تباہ کن اثرات کے بعد کرونا کی تباہ کاریوںکا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اردنی حکومت نے مارچ میں کرونا کی وبا کے پیش نظر ملک میں کرفیو لگا دیا۔ کرفیو کا سلسلہ وسط جون تک جاری رہا۔ کرفیو اور لاک ڈائون نے فلسطینی پناہ گزینوں کو بدترین مشکلات سے دوچار کیا۔ اردن میں قائم فلسطینی پناہ گزینوں کے 13 کیمپوں میں فلسطینیوںکو بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
فلسطینی تجزیہ نگار موفق عوض نے بتایا کہ اردن میں قائم ‘غزہ’ کیمپ میں ایک لاکھ 40 ہزار فلسطینی پناہ گزین قیام پذیر ہیں۔ اس کیمپ میں سنہ 1968ء کو غزہ کی پٹی سے نقل مکانی کرکے وہاں پرآباد ہونے والے فلسطینی ہیں۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد غزہ کی پٹی اور غرب اردن سے ہزاروں فلسطینی نقل مکانی کرکے اردن اور دوسرے عرب ممالک میں آباد ہوئے تھے۔
اس کیمپ نے فلسطینیوں نے اردن یا کسی دوسرے ملک کی شہریت قبول کرنےسے انکار کردیا تھا۔ سنہ 2010ء کو اسرائیل نے اردن پر زور دیا تھا کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی پیش کرے۔ اس وقت کے اردنی وزیر داخلہ نایف القاضی نے اسرائیل کی طرف سے دی گئی اس تجویزکا اعتراف کیا تھا۔
موفق عوض نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اونروا نیوز ایجنسی فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے میں لاپرواہی برتنے پرمصر ہے۔ ایجنسی کو معلوم ہے کہ فلسطینی پناہ گزین بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سال 2020ء اس اعتبار سے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مشکلات کا سال گذرا کہ اس سال ‘اونروا’ نے مالی مشکلات کا بہا بنا کر سیکڑوں فلسطینی پناہ گزین ملازمین کو تنخواہیں دینےسے انکار کردیا۔