کورونا وائرس کی وجہ سے متعدد موسمی بیماریوں کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی: سائنسدان

کورونا وائرس کی وجہ سے متعدد موسمی بیماریوں کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی: سائنسدان

دسمبر کے وسط میں دنیا کے بیشتر ممالک میں عام نزلہ زکام اور فلو کے سیزن کا آغاز بھی ہوجاتا ہے مگر اس سال جب کووڈ 19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، وہاں متعدد موسمی بیماریوں کی شرح حیران کن حد تک کم ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے دوان مختلف ممالک میں عارضی لاک ڈاؤن، فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری، ذاتی صفائی جیسی احتیاطی تدابیر پر عمل ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں نظام تنفس کی دیگر بیماریوں کی شرح پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ویسے تو انسانوں کو عام نزلہ زکام اور فلو کا سامنا عرصے سے ہورہا ہے مگر اس کا باعث بننے والے وائرسز کے بارے میں تاحال کچھ زیادہ علم نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس سال کے رجحانات سے انہیں ان بن بلائے مہمانوں کے پھیلاؤ اور رویوں کے بارے میں نئی تفصیلات حاصل ہوسکیں گی۔

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے نیشنل سینٹر فار امیونزایشن اینڈ ریسیپٹری ڈیزیز کی وبائی امراض کی ماہر سونجا اولسن کے مطابق یہ نظام تنفس کے متعدد وائرسز کے لیے ایک قدرتی تحقیق جیا ہوگا’۔

رواں سال می میں جب متعدد ممالک میں کووڈ 19 کی پہلی لہر کی شدت میں کمی آرہی تھی اور اکثر مقامات پر سخت ترین لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا، اس وقت طبی عملے کو احساس ہوا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں فلو سیزن وقت سے پہلے تھم گیا۔

اس کی جزوی وجہ تو یہ تھی کہ بہت کم افراد فلو کی شکایت کے ساتھ آرہے تھے، مگر بنیادی وجہ کورونا کی روک تھام کے لیے اپنائی جانے والی پالیسیوں جیسے سماجی دوری کا موثر ہونا تھا۔

کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد فلو وائرس کے مثبت ٹیسٹوں کی شرح امریکا میں 98 فیصد تک کم ہوگئی تھی، جبکہ نمونوں کو جمع کرانے کی شرح میں 61 فیصد کمی آئی۔

زمین کے جنوبی کرے میں جب موسم سرما کا آغاز ہوا تو وہاں بھی اپریل سے جولائی 2020 کے دوران فلو کے کیسز میں حیران کن کمی دیکھنے میں آئی، حالانکہ کووڈ 19 کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا، آسٹریلیا، چلی اور جنوبی افریقہ میں 83 ہزار سے زیادہ ٹیسٹوں میں فلو کے محض 51 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

سونجا اولسن کے مطابق ہم جانتے ہیں کہ ان وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کورونا وائرس سے کم ہوتی ہے، تو یہ قابل فہم ہے، مگر پھر بھی موسمی بیماریوں کے کیسز میں کمی توقعات سے بہت زیادہ تھی، اگرچہ کووڈ کی احتیاطی تدابیر کا بھی اس میں ہاتھ ہے مگر یہ مکمل تصویر نہیں۔

وائرلوجسٹ رچرڈ ویبی کے مطابق کچھ جنوبی امریکی ممالک نے کووڈ 19 کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کچھ خاص کام نہیں کیا تھا مگر وہاں بھی فلو کی شرح کم رہی، میرا نہیں خیال یہ صرف فیس ماسک پہننے اور سماجی دوری سے ہوا، ان کے خیال میں بین الاقوامی سفر میں کمی بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔

فلو عام طور پر ہر سال مخصوس مہینوں میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے، جس کے حوالے سے پورے سال میں کچھ زیادہ احتیاط بھی نہیں کی جاتی، مگر لوگوں کی نقل و حمل اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتا ہے۔

بیشتر ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ اس سال شمالی نصف کرے میں فلو سیزن زیادہ نہیں ہوگا اور یہ متعدد پہلوؤں سے اچھی خبر بھی ہے، بالخوس ا سے مختلف ممالک کے طبی نظام پر بوجھ کم ہوگا، مگر اس کے چند نقصانات بھی ہیں جیسے اگر اس سال فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہا تو 2021 کی فلو ویکسین کے لیے اس وائرس کی درست قسم کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا۔

ماہرین کے خیال میں فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہنے سے اس وائرس کی کم عام اقسام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے ہمارے لیے منظرنامہ سادہ بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ وائرل مسابقت نہ ہونے سے مستقبل میں سوائن فلو کی نئی اقسام ابھر سکتی ہیں۔

انفوائنزا وائرسز کی شرح ہی کورونا وائرس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کم نہیں ہوئی، درحقیقت نظام تنفس پر منفی اثرات مرتب کرنے والے سیکڑوں وائرسز جیسے عام نزلہ زکام اور دیگر کے کیسز کی شرح بھی جنوبی نصف کرے میں نمایاں حد تک کم رہی۔

محققین نے آر ایس وی نامی ایک عام وائرس کی شرح میں بھی کمی دیکھی ہے جو بچوں کو متاثر کرتا ہے اور اکثر سنگین بیماریوں جیسے نمونیا کا باعث بن جاتا ہے، آر ایس وی کے خلاف کوئی ویکسین نہیں اور دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر 5 فیصد بچوں کی اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہے، مگر رواں سال کے موسم سرما میں آسٹریلیا میں اس کے شکار بچوں کے کیسز کی شرح میں 98 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ فلو کے کیسز کی شرح میں 99 فیصد کمی دیکھی گی، حالانکہ اسکول کھلے ہوئے تھے۔

بس ایک وائرس پر اس وبا کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے جو رینو وائرس ہے جو عام نزلہ زکام کا باعث بنتا ہے خاص طور پر بچوں میں، اس وائرس کی سیکڑوں اقسام ہیں اور عام طور پر ایک برادری میں درجن بھر اقسام متحرک رہتی ہیں۔

برطانیہ میں ایک تحقیق کے دوران بالغ افراد میں اس وائرس کے کیسز کی شرح 2020 کے موسم گرما میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی، مگر ستمبر میں اسکول کھلنے کے بعد اس میں اضافہ ہوا، اچھی خبر یہ ہے کہ عام نزلہ زکام لوگوں کو کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

8 لاکھ سے زائد افراد ہر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن بالغ افراد میں نزلہ زکام کی علامات گزشتہ سال دیکھی گئی تھیں، ان میں کووڈ کی شرح کم رہی، مگر ایسا کیوں ہے، یہ وجہ ابھی تک راز ہے۔

ابھی ان وائرسز کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں اور بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بدترین پس منظر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان

وزیر اعظم پاکستان نے ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا

پاک صحافت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کے قائم مقام …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے