امریکہ میں ٹرمپ حامیوں کے وحشیانہ حملوں پر عالمی رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کردیا

امریکہ میں ٹرمپ حامیوں کے وحشیانہ حملوں پر عالمی رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کردیا

واشنگٹن (پاک صحافت)امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ اور پرتشدد حملوں اور کیپٹل ہل میں کی جانے والی ہنگامہ آرائی پر عالمی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہکیپٹل ہل میں ناپسندیدہ مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں، امریکہ پوری دنیا میں جمہوریت کے لیے کھڑا ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہاں پرامن اور منظم انداز میں انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہو۔،

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کیپٹل ہل کے مناظر پریشان کن اور تکلیف دہ ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔

یورپی یونین کے عہدے داروں نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کی جانے والی ہنگامہ آرائی کی مذمت کی ہے۔

یورپین کمیشن کی سربراہ ارسلا وون ڈیر لیئن نے ٹوئٹ کی کہ میں امریکی اداروں اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں جس کی اساس اقتدار کی پرامن منتقلی ہے، اور درحقیقت بائیڈن یہ الیکشن جیتے ہیں۔

مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) کے سربراہ جنرل جینز اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی کے مناظر دیکھ کر لرزہ طاری ہو رہا ہے، جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات کا احترام ضروری ہے۔

ترکی کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں امریکہ میں مقیم اپنے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ہجوم والے مقامات سے دُور رہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی توقع کرتا ہے کہ فریقین صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور امریکہ اس داخلی بحران پر قابو پا لے گا۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ نے اپنی ٹوئٹ میں بدھ کو کیپٹل ہل پر حملے کو جمہوریت پر حملے کے مترادف قرار دیا۔

امریکہ میں مختلف ریاستوں کے سیاسی فورم آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس (او اے ایس) نے بھی بھی کیپٹل ہل پر حملے کی مذمت کی ہے۔

فورم کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ جمہوری اداروں میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ سے جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

واضح رہے کہ کیپٹل ہل پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے اس وقت چڑھائی کی جب کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ارکان کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوران امریکی صدارتی انتخابات میں بعض ریاستوں کے نتائج پر اٹھنے والے اعتراضات پر بحث سمیت نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کی فتح کی توثیق کی جانا تھی۔

کانگریس میں مذکورہ کارروائی سے قبل صدر ٹرمپ کے حامیوں نے وہاں دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی اور سینیٹرز کو ان کے چیمبروں سے بے دخل بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے