بھارتی یوم جمہوریہ یوم جنگ میں تبدیل، نئی دہلی میں بھارتی پولیس اور کسان آمنے سامنے آگئے

بھارتی یوم جمہوریہ یوم جنگ میں تبدیل، نئی دہلی میں بھارتی پولیس اور کسان آمنے سامنے آگئے

نئی دہلی (پاک صحافت) بھارت میں یوم جمہوریہ اس وقت یوم جنگ میں تبدیل ہوگیا جب بھارت میں یوم جمہوریہ کی فوجی پریڈ کے انعقاد کے دوران ہزاروں بھارتی کسانوں نے نئی دہلی میں احتجاجی مارچ شروع کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے لگائی گئی تمام رکاوٹیں توڑ دیں جس کے بعد پولیس اور کسان آمنے سامنے آگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے زراعت اصلاحات کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کو روکنے کے لیے سب سے بڑا سیکیورٹی آپریشن نافذ کیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان اصلاحات سے ان کا معاش ختم ہوجائے گا۔

حکام نے فوجی پریڈ کے ختم ہونے کا انتظار کرنے پر کسانوں کو ٹریکٹر ریلی نکالنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا، تاہم جھنڈے لہراتے کسانوں نے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے کم از کم تین اہم سڑکوں کو پار کرکے شہر کا رخ کیا۔

پولیس نے راستے میں کنٹینرز اور ٹرک کھڑے کرکے کسانوں کو روکنے کی کوشش کی تھی جبکہ کسانوں کے کم از کم دو گروہوں پر آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے تھے۔

احتجاج میں شامل نریش سنگھ نے دہلی کے کنارے سنگھو میں ٹریکٹر کو دہلی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کو یہ بتانے جارہے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبار ہے۔

شہر میں دوسری اہم سڑکوں پر کھڑے ٹریکٹرز کی لمبی قطاریں لگ گئیں جہاں کسانوں نے دو ماہ سے ایسے نئے قوانین کے خلاف ڈیرے لگا رکھے ہیں جن سے پیداواری مارکیٹیں ڈی ریگولیٹ ہوں گی۔

حکومت کا کہنا تھا کہ ان اصلاحات سے دیہی آمدنی میں اضافہ ہوگا جبکہ کسانوں کا کہنا تھا کہ اس سے بھارتی زراعت پر بڑی مچھلیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔

انہوں نے حکومت سے قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست انتظامیہ نے صرف 18 ماہ کے لیے عمل درآمد مؤخر کرنے کی پیش کش کی۔

پولیس نے شہر کے وسط میں چاروں طرف چوراہوں پر رکاوٹیں لگا رکھی تھیں جبکہ مشین گن کے ساتھ فوجی کئی میٹرو ٹرینوں پر سوار تھے۔

مظاہرے سے تقریبا 25 کلومیٹر دور اس پریڈ کو اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے کم کردیا گیا تھا، راجپاتھ بولیورڈ سے مرکزی حکومتی کمپلیکس تک شائقین کی تعداد ایک لاکھ 25 ہزار سے کم کرکے 25 ہزار کردی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بھارت میں زرعی اصلاحات کے قانون کو ستمبر میں منظوری دی گئی تھی اور اس وقت سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے جس میں شدت اس وقت آئی تھی جب احتجاج کرنے والوں نے بھارتی دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کی۔

حالیہ برسوں میں خشک سالی اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ہزاروں کسان خودکشی کرچکے ہیں۔

رواں سال کے شروعات میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق کسانوں کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اسے زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی قرار دیتے ہوئے سراہا جو لاکھوں کسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا، تاہم پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بحث کی کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے