بھارت پینٹاگون

چین پر تبادلہ خیال کے لئے پینٹاگون سربراہ کا بھارت دورہ

پینٹاگون {پاک صحافت} پینٹاگون کے چیف لائیڈ آسٹن نے نئی دہلی میں بات چیت کرتے ہوئے بھارت کے ‘ہم خیال شراکت داروں’ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی تعریف کی۔

واضح رہے کہ بھارت ایشیا پیسیفک کے خطے میں امریکا کا ایک اہم شراکت دار ہے اور لائیڈ آسٹن کا دو روزہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا نئی دہلی سے آمنے سامنے بات چیت کا پہلا موقع ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ الاسکا میں اعلٰی امریکی اور چینی عہدیداروں کے درمیان بات چیت کے بعد سامنے آیا جسے واشنگٹن کے ایک سینئر عہدیدار نے ‘سخت اور براہ راست’ قرار دیا تھا۔

بھارت سے قبل لائیڈ آسٹن اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جاپان اور جنوبی کوریا کا دورہ کیا تھا جو چینی سرگرمیوں سے ناراض اس خطے میں امریکا کے دو دیگر اہم شراکت دار ہیں۔

اس کے بعد امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے چار طرفہ اتحاد ‘کواڈ رہنماؤں’ کے پہلے سربراہی اجلاس معقد ہوگا جس میں چین کے خلاف کاروائی دیکھی جاسکتی ہے۔

‘مشترکہ اہداف’

لائیڈ آسٹن جمعے کی رات نئی دہلی پہنچے اور انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال سے بات چیت کی۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا لائیڈ آسٹن نے ‘ہند بحر الکاہل میں بھارت کے قائدانہ کردار کی تعریف کی اور مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے خطے میں ہم خیال افراد کے ساتھ بڑھتی ہوئی مصروفیت کو سراہا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دونوں فریقین نے آزاد علاقائی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے اپنے عزم کی تصدیق کی، خطے کے مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے والے دونوں فریقین نے اپنے خیالات کا تبادلہ کیا اور ان کے وسیع تر اور مضبوط دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا’۔

براہ راست چین کا ذکر نہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا کہ ‘بھارت اور امریکا اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے پرعزم ہیں’۔

کانٹے دار تاریخ

لائیڈ آسٹن نے ہفتے کے روز وزیر خارجہ ایس جیشنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کریں گے۔

وہ بھارت میں انسانی حقوق کے بارے میں سوال اٹھا سکتے ہے کیونکہ ایک دیگر سینئر امریکی عہدیدار نے اس معاملے کو ‘بائیڈن انتظامیہ کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ’ قرار دیا ہے۔

امریکا اور بھارت کے تعلقات تاریخی طور پر کانٹے دار رہے ہیں تاہم چین کے بارے میں مشترکہ رائے کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قریب تر ہوگئے تھے۔

گزشتہ جون ہمالیہ میں بھارت اور چین کی متنازع سرحد پر ایک جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں اور چار چینی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے۔

‘اہم دفاعی شراکت دار’

2016 میں امریکا نے بھارت کو ‘اہم دفاعی شراکت دار’ قرار دیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے جدید اسلحہ کی منتقلی اور فوجی تعاون کو بڑھانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

امریکی دفاعی اداروں نے بھارت کی مسلح افواج کو جدید بنانے تحت 250 ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹروں سمیت فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے لیے معاہدے کیے ہیں۔

تاہم روس بھارت کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے اور نئی دہلی نے ماسکو کے ایس -400 میزائل دفاعی نظام کی 5 ارب 40 کروڑ ڈالر کی خریداری پر رضامندی کا اظہار کیا ہے حالانکہ اس سے امریکی پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

کیمپ

فلسطین کی حمایت میں طلبہ تحریک کی لہر نے آسٹریلیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

پاک صحافت فلسطین کی حمایت میں طلبہ کی بغاوت کی لہر، جو امریکہ کی یونیورسٹیوں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے