آئے دن بدعنوانی کی ذلت بھری دلدل میں پھنستے ہوئے اسرائلی وزیر اعظم

آئے دن بدعنوانی کی ذلت بھری دلدل میں پھنستے ہوئے اسرائلی وزیر اعظم

قابض صہیونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا چہرہ مزید تاریک اور بھیانک ہوتا جارہا ہے کیونکہ جرمن سب میرین ڈیل کی کیس میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جس میں ان پر الزام ہے کہ وہ اسے خریدنے کے عمل میں رشوت وصولی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

“اسرائیلی” میڈیا نے “اسرائیل” اور جرمن شپ یارڈ “تھائیسن کرپ” کے مابین ہونے والے مشکوک معاہدے کے بارے میں نئی تفصیلات کا انکشاف کیا۔ اس کے بعد نیتن یاہو کو ایک اور شرمندگی کا سامنا ہے۔

نیتن یاہو نے کل اس کیس میں اپنے خلاف فرد جرم منسوخ کرنے کی درخواست پیش کی تھی۔ اس سے قبل کنیسٹ  میں اسرائیل انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے نیتن یاہو کو اس کیس میں ان کے خلاف فرد جرم منسوخ کرنے کی درخواست پیش کی گئی۔

“نیتن یاہو” نے اسرائیلی بحریہ کے  پانچ کے بعد چھٹی سب میرین بھی خریدنے کا فیصلہ کیا اور بعد میں انہوں نے وزیر برائے قومی سلامتی اور اسرائیلی چیف آف اسٹاف کو یہ فیصلے کرنے سے باہر ان سے خفیہ طور پر “تھائیسن کرپ” کمپنی سے تین آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا۔

نیتن یاہو کو تین بدعنوانی کیسز میں الزامات کا سامنا ہے۔ ان میں ” کیس 1000″ کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں  تاجروں سے سہولیات کے بدلے تحائف لینے، اخبار “اسرائیل ٹوڈے” اخبار کو کمزور کرنے کے بدلے مثبت کوریج حاصل کرنے کے لیے مہم چلائی۔

جہاں تک “کیس 4000” کا تعلق ہےتو اس میں “نیتن یاہو” پر “بیزوق” ٹیلی مواصلات کی کمپنی، “شاؤلو آوچائچ” میں کنٹرولنگ شیئر ہولڈر کو فوائد اور مالی سہولیات دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ “الوچ” کے زیر ملکیت ایک میڈیا سائٹ “واللا” پر مثبت کوریج کے بدلے میں رشوت دی گئی۔

“نیتن یاہو” کے خلاف اسرائیلی مظاہرے “کرونا” کیس میں ان کی بدانتظامی پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اسرائیلی اور فوجی امور کے مبصرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آبدوز کیس یاھو کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی۔

“نیتن یاہو” کے فرد سے متعلق بدعنوانی کے کیسز جمع ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے حریفوں کے سامنے وزیر اعظم کی کرسی پر قابض رہنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔

اسرائیلی اخبارات میں شائع شدہ تخمینے کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ “نیتن یاہو” کی آزمائش میں دو یا تین سال لگیں گے۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ میں ان کی مکمل حمایت اور عرب حکومتوں کے ساتھ تعلقات معمول پر کی کامیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دائیں اور انتہائی دائیں طرف  یہودیوں‌کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

جرمنی میں اسرائیل کے سابق سفیر بین زیف نے کہا ہےکہ ایک طویل عرصے سے نیتن یاھو کی ہدایت کے مطابق چھٹی سب میرین کی خریداری میں پیشرفت کے بارے میں اطلاعات صرف ایوریئل بار یوسف کو منتقل کی گئیں اور وزیر خارجہ سمیت وزارت خارجہ کے ذمہ دار اداروں کو لا علم رکھا گیا۔ مسٹر نیتن یاہو نے 27 اگست 2009 کو جرمنی کے دورے کے دوران مجھے ان ہدایات سے آگاہ کیا۔

سفیر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ “نیتن یاہو” جرمنی سے آبدوزوں کی خریداری کے سودے کو مخفی رکھنا چاہتے تھے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر محمود العجرمی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان اطلاعات سے “نیتن یاہو” اور اس کے ایک قریبی ساتھی کے درمیان بدعنوانی اور بروکریج کے عمل کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے جو بڑی رقم میں سب میرین خریدنے کے عمل میں حصص کا مالک ہے۔

انہوں نے ایک نجی اخبار سے بات کرت ہوئے میں مزید کہا کہ صورتحال کی حساسیت یہ ہے کہ آبدوزیں عوامی شعبے سے تعلق رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے حکومت کی سربراہی میں اور اس سے یہودی ریاست کی قومی سلامتی متاثر ہوئی ہے  یہ رویاست کے زوال کا آغاز ہے۔

حالیہ برسوں میں “اسرائیل” نے بدعنوانی اور ہراساں کرنے اور دیگر کیسوں کے الزامات کے تحت اسرائیلی سیاسی رہ نماؤں کی جن میں سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور موشے کسائو شامل ہیں کی کرپشن کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔

اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے سابق نائب سربراہ “ایریل بار یوسف”  اس کیس کا ایک اہم مدعا علیہ ہیں اور ان پر رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کی درخواست کرنے کا الزام ہے۔ “اسرائیل” میں فیصلے کے معیار کے لیے چلنے والی تحریک نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کیس کو دوبارہ شامل کرنے کے لیے تحقیقات کی جائیں۔

ایک فوجی تجزیہ کار میجر جنرل یوسف شرقاوی کا کہنا ہے کہ “نیتن یاہو” نے سیکیورٹی کی سطح سے اس سودے میں موجود معلومات کو چھپایا اور اس معاہدے کی تفصیلات اور اصل رقم جو جرمنی کے ساتھ انجام پائے کو مخفی رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

غزہ

عطوان: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ ایک بڑی علاقائی جنگ کی چنگاری ہے

پاک صحافت عرب دنیا کے تجزیہ کار “عبدالباری عطوان” نے صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے